میاں بیوی خوبصورت نہیں بلکہ قدر کرنے والے ہونے چاہییں کیونکہ۔۔؟
انسانی پیدائشی طور پر کسی سے نفرت نہیں کر تا نفرت کر نا اسے سکھا یا جا تا ہے والدین سکھاتے ہیں سکول کی کتابیں سکھاتی ہی میڈیا سکھاتا ہے ورنہ انسان کی فطرت تو محبت کر نا ہے۔ کائنات میں ایسا کوئی غم نہیں ہے جسے اللہ نہیں بھر سکتا۔ ضروری نہیں آپ کی زندگی میں بے
چینی یا خالی پن کسی شخص کے جانے، کسی خواہش کے پورا نہ ہو سکنے یا کسی چیز کے نہ ملنے کی وجہ سے ہو۔ جب جب ہماری روح پر چھوٹے چھوٹے گ ن ا ہ وں کا بوجھ بڑھ جا تا ہے سکون مانگتی ہے جو صرف سجدے میں ہے۔ احساس کے رشتے دستگ کے محتاج نہیں ہو تے یہ تو خوشبو کی طرح ہو تے ہیں جو بند دروازوں سے بھی گزر جا تے ہیں۔ جو شخص آ پ کے احساس اور آپ کی زندگی میں اپنی ضرورت کو نہ ہی سمجھتا ہے اور نہ ہی اہمیت دیتا ہے وہ رفت رفتہ آپ کی زندگی میں اپنی اہمیت اور جگہ کھو دیتاہے۔
ہم سفر خوبصورت نہیں قدر کرنے والا ہو نا چاہیے گھر پیسے اور طاقت سے نہیں محبت اور نہیں اتفاق سے بنتے ہیں۔ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر بد نام کیے بغیر حسر کیے بغیر ان سے الجھے بغیر آگے نکل جانے کا ہنر سیکھیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ مطمئن لوگ وہ ہیں جنہیں اپنے معا ملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے کی عادت ہو۔
وجو ہات ضرور تلاش کر یں لیکن حل مثبت ہو کسی کا بھلا نہ ہو سکے تو برا کرنے کی کوشش نہ کرو۔ دنیا کمزور ہے لیکن دنیا بنانے والا نہیں۔ ا للہ سے دعا کر تے رہنا چاہیے کہ کسی ایسی جگہ دل کو ذلیل نہ ہونے دے کہ اچھے اخلاق سے بھروسہ اٹھ جا ئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہٴ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔ یونان میں، مصر میں، عراق میں، ہند میں، چین میں، غرض ہرقوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔
لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خریدوفروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیاجاتاتھا؛ حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا ۔ واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق رکھناروحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔
دنیا کے زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا۔ اس کے معاشی وسیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولادِ نرینہ کی تابع اور محکوم تھی۔ اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتدار حاصل تھا؛ یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا