میت کو دفنانے کے فوراً بعد ۔۔۔ بھتیجے نے کھانے کا بھی اعلان کردیا۔ میت کے گھرانوں میں کھانا کھلانے کا رواج کیوں بڑھتا جا رہا ہے؟
اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا غم صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں جنہوں نے سگے رشتوں کو کھویا ہو۔ زندگی ایک فانی چیز ہے جس کی حیثیت صرف ایک اذان سے دوسری اذان تک کا وقفہ ہے۔ کب خدا کی طرف سے حکم ہو اور موت واقع ہو جائے یہ کوئی نہیں جانتا۔ بہرحال موت تو برحق ہے۔ جب کسی گھر میں میت ہوتی ہے تو سب سے پہلے آس پڑوس کے لوگ گھر والوں سے تعزیت کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ یہ سب معاملات یقیناً ہر جگہ عام ہیں۔لیکن ایک بات جو سمجھ سے بالا تر ہے وہ میت کے گھر میں کھایا جانے والا کھانا ہے۔ پہلے ہی گھر والے اپنے پیارے کے جانے کا غم برداشت نہیں کر پا رہے ہوتے، اس پر کھانے کھلائے جانے کا اہتمام اور پھر جو مہمان گھر رکنے آئے ہیں ان کے ناشتے، چائے پانی کا انتظام کرنا کیا یہ دوہری قیامت نہیں ہوتی؟
چاچا کا انتقال ہوگیا، بیٹے اپنے والد کی تدفین اور دیگر انتظامات کرنے میں مصروف تھے۔ جوں ہی میت کو قبر میں اتارا، مٹی ڈالی، مرحوم کی مغفرت کے لیے دعائیں کیں، ابھی دعا ختم ہوئی ہی تھی کہ بھتیجے نے بآوازِ بُلند اعلان کیا کہ سب لوگ گھر جا کر کھانا کھا کر پھر رخصت ہوئیے گا۔ بناء کھانا کھائے بغیر نہیں جائیے گا۔ایسے مواقعوں پر عام طور پر گھر والے یعنی اگر باپ کی میت ہوئی ہے تو بیٹے، یا بیٹوں کی میت ہوئی ہے تو والد تدفین کے بعد کھانے کے لئے لوگوں کو نہیں کہہ پاتے، مگر قریبی رشتے دار کہہ دیتے ہیں کہ جی کھانا کھا کر جائیے گا۔ارے کوئی خوشی کی بات ہے یا کوئی شادی کی تقریب ہے کہ کھانا کھا کر جائیے گا؟ کیا یہ ہمارے مذہب میں موجود ہے؟ کھانے کا انتظام میت کے گھر کیا جانا اخلاقی اعتبار سے بھی درست نہیں۔ مگر ہمارا معاشرہ کسی طور اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اموات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں اموات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں کھانے کھلائے جانے کا اہتمام بھی بڑھ رہا ہے؟یہ حال تو قبرستان کا ہے جہاں مرد حضرات ایک دوسرے کو کھانے کا کہتے ہیں۔ وہیں گھروں میں خواتین بھی ایک دوسرے سے کھانے کا تقاضا کرتی دکھائی دیتی ہیں اور باقاعدہ خواتین انتظار کرتی ہیں کہ کب ہمارے گھر والے تدفین کرکے آئیں اور کب یہ لوگ (جن کے ہاں میت ہوئی ہے) کھانا شروع کریں اور ہم کھا کر جائیں۔
جناب! اپنا سگا رشتہ، اپنا پیارا بھی انہوں نے ہی کھویا ہے، وہ دلبرداشتہ ہیں۔ ارے اب وہ آپ کے کھانے پینے کے نخرے بھی اٹھائیں؟ پہلے اور دوسرے دن کا کھانا تو کوئی قریبی عزیز و اقارب دے دیتے ہیں۔ پھر تیسرے دن ایک جمِ غفیل اُمڈ آتا ہے۔ اس دن تو گھر والے ہی کھانا دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ جیتا جاگتا انسان بھی کھو دیا اب نہ جانے کس بات کا کھانے پینے کا خرچہ؟ ضروری نہیں کہ ہر کوئی خرچہ اٹھا سکے۔سکون صرف قبر میں ہے، لیکن قبر تک جانے کا عمل بھی سستا نہیں ہے، قبر کے لیے جگہ خریدو، کفن، دفن یہ سب کچھ بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ سب تو لازم و ملزوم ہیں مگر کسی کے جانے کے بعد کھانے کا انتظام یقیناً مشکل ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس رسم کو ختم کرنے کی ضرورت ہے؟ اگر ہاں تو ایک مرتبہ اپنی آواز بلند کرکے دیکھیں، کتنے لوگوں کا بھلا ہوگا۔