مینار پاکستان پرخاتون ٹک ٹاکر کے ساتھ پیش آنے والا انتہائی افسوس ناک واقعہ۔۔۔
پاکستان کے یوم آزادی یعنی 14 اگست کے روز صوبائی دارالحکومت لاہور میں مینار پاکستان پر ایک خاتون ٹک ٹاک سٹار عائشہ اکرام کو صوبائی دارالحکومت لاہور میں مینار پاکستان پر سینکڑوں افراد کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔متاثرہ سٹار عائشہ اکراماپنی ٹیم کے ہمراہ ویڈیو بنا رہی تھیں جب یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ سوشل میڈیا پر منگل کو اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ بحث ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے کہ آیا ملک کے بڑے شہروں میں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔
اس واقعے کی وائرل ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے تین سے چار سو افراد پر مشتمل ایک ہجوم عائشہ پر حملہ آور ہوتا ہے اور انھیں ہراساں کرتا ہے۔ ویڈیو میں عائشہ کو مدد کے لیے چیخ و پکار کرتے بھی دیکھا اور سُنا جا سکتا ہے۔ لاہور پولیس نے مقدمے کے اندراج اور اس میں ’سخت دفعات‘ کا اضافہ کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔پولیس کے مطابق اس کیس میں ویڈیو کلپس کے سہارے سے ملزمان تک پہنچا جائے گا۔ ڈی آئی جی لاہور پولیس شارک جمال کا کہنا تھا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ جلد از جلد ملزمان کو گرفتار کر لیں۔ واقعے کی سوشل میڈیا پر اور دیگر فوٹیجز جمع کر لی گئی ہیں اور ’ہم ایک ایک شخص کی شناخت کر کے ان کی تصویریں نکال کر ان کو بہتر کر رہے ہیں۔
جس کے بعد ان تصویروں کو نادرا کو آج رات تک بھجوا دیا جائے گا۔ ان کے مطابق ہم نے نادرا سے بھی درخواست کی ہے کہ اس کام کو اولین بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس واقعے میں ملوث ہر شخص کی عمر تقریباً 30 سال سے کم ہے۔ اس لیے جو لڑکے 18 سال سے کم عمر کے ہوں گے ان کے بے فارم یا خاندانی نمبر سے انھیں تلاش کیا جائے گا۔انھوں نے مزید بتایا یہی نہیں ہم نے لڑکی کے موبائل فون کے پاس موجود تمام تر نمبرز کی بھی جیو فینسنگ کر لی ہے جو ہمیں ملزمان تک پہنچنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ اس کے علاوہ ہمارے اپنے لوگ بھی ملزم کی تلاش میں ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب بھی کوئی ایسا کرائم ہوتا ہے، جس میں ہجوم شامل ہو تو اس میں لوگوں کی شناخت مشکل ضرور ہوتی ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ اس واقعے میں ہم زیادہ تر ملزمان کو پکڑ لیں گے۔ ترجمان پنجاب حکومت فیاض الحسن چوہان نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ملزمان کی کچھ تصاویر شیئر کیں اور لکھا کہ گریٹر اقبال پارک واقعے میں ملوث ان کرداروں کی اطلاع اعلیٰ حکام کو دے دی گئی ہے۔
پولیس حکام نادرا اور پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی مدد سے سائنٹفک طریقے سے ان سمیت تمام افراد کو ٹریس کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ’گریٹر اقبال پارک میں خاتون سے دست درازی کا واقعہ انتہائی شرمناک اور بہیمانہ فعل ہے، اسلامی اقدار کے حامل ہمارے مشرقی معاشرے میں خواتین عزت و احترام کے اعلیٰ درجے پر ہیں۔ چند سو افراد کے قبیح فعل نے پورے معاشرے کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔شرمناک واقعے کی ایف آئی آر کاٹی جا چکی ہے، اور ویڈیو کی مدد سے ملوث ملزمان کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے مطابق ملزمان کو سخت سزا دی جائے گی۔ حکومت ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائے گی تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں۔ وزیر اعلیٰ کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا اظہر مشوانی نے کہا ہے کہ عاشورہ پر ڈیوٹی کے باوجود پولیس ملزمان کی گرفتاری کے لیے ویڈیو اور سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لے رہی ہے۔
’ایف آئی آر میں سخت اور ناقابل ضمانت جرائم کی دفعات شامل کر دی گئی ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ دن دہاڑے یہ واقعہ مزید خوف کا باعث بنا ہے اور یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب پاکستان میں لوگ پہلے ہی ’نور مقدم اور قرت العین جیسے واقعات کے صدمے میں ہیں۔‘ ایک بیان میں اس نے حکام سے فوری طور پر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔یہ ویڈیوز سامنے آنے کے بعد لاہور پولیس نے متاثرہ ٹک ٹاکر عائشہ کی درخواست پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے اپنی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ منگل کے روز عائشہ نے لاہور کے تھانہ لاری اڈہ میں درخواست دی تھی کہ وہ 14 اگست کو شام ساڑھے چھ بجے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گریٹر اقبال پارک میں یوٹیوب کے لیے ویڈیو بنا رہی تھیں کہ اچانک وہاں پر موجود تین، چار سو سے زیادہ افراد کے ہجوم نے اُن پر حملہ کر دیا۔ درخواست کے مطابق عائشہ اور ان کے ساتھیوں نے ہجوم سے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے اور اسی دوران وہ گارڈ کی جانب سے جنگلے کا دروازہ کھولے جانے کے بعد اندر چلے گئے لیکن ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ لوگ جنگلے کو پھلانگ کر ان کی طرف آئے اور کھینچا تانی کی۔
ہجوم میں موجود لوگ اُن کو اٹھا کر ہوا میں اچھالتے رہے اور ان کے کپڑے بھی پھاڑ دیے۔ عائشہ نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ ان پر تشدد کیا گیا اور ان کا موبائل فون، نقدی اور سونے کے ٹاپس بھی چھین لیے گئے۔ واقعے کی 15 کال پر (لڑکی کو) فوری طور پر ریسکیو کیا گیا تھا۔ اس افسوس ناک واقعے نے بہت سارے پاکستانیوں کو مایوس کیا ہے۔ سیاسی رہنما ہوں یا شوبز کے ستارے، سبھی اس پر معاشرے میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والے ایسے انگنت واقعات پر غمزدہ ہیں۔ یہ واقعہ ہر پاکستانی کے لیے باعثِ شرم ہے اور ہمارے سماج کی پستی کو بیان کرتا ہے۔ ذمہ داروں سے انصاف ہونا چاہیے، پاکستانی خواتین خود کو غیرمحفوظ سمجھ رہی ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کا تحفظ اور مساوی حقوق کو یقینی بنائے۔ اکرام جو اپنی ٹیم کے ہمراہ ویڈیو بنا رہی تھیں، کو سینکڑوں افراد کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر منگل کو اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ بحث ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے کہ آیا ملک کے بڑے شہروں میں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔
لاہور پولیس نے مقدمے کے اندراج اور اس میں ’سخت دفعات‘ کا اضافہ کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔پولیس کے مطابق اس کیس میں ویڈیو کلپس کے سہارے سے ملزمان تک پہنچا جائے گا۔ ڈی آئی جی لاہور پولیس شارک جمال کا کہنا تھا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ جلد از جلد ملزمان کو گرفتار کر لیں۔ واقعے کی سوشل میڈیا پر اور دیگر فوٹیجز جمع کر لی گئی ہیں اور ’ہم ایک ایک شخص کی شناخت کر کے ان کی تصویریں نکال کر ان کو بہتر کر رہے ہیں۔ جس کے بعد ان تصویروں کو نادرا کو آج رات تک بھجوا دیا جائے گا۔ان کے مطابق ہم نے نادرا سے بھی درخواست کی ہے کہ اس کام کو اولین بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس واقعے میں ملوث ہر شخص کی عمر تقریباً 30 سال سے کم ہے۔ اس لیے جو لڑکے 18 سال سے کم عمر کے ہوں گے ان کے بے فارم یا خاندانی نمبر سے انھیں تلاش کیا جائے گا۔انھوں نے مزید بتایا یہی نہیں ہم نے لڑکی کے موبائل فون کے پاس موجود تمام تر نمبرز کی بھی جیو فینسنگ کر لی ہے جو ہمیں ملزمان تک پہنچنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔
اس کے علاوہ ہمارے اپنے لوگ بھی ملزم کی تلاش میں ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب بھی کوئی ایسا کرائم ہوتا ہے، جس میں ہجوم شامل ہو تو اس میں لوگوں کی شناخت مشکل ضرور ہوتی ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ اس واقعے میں ہم زیادہ تر ملزمان کو پکڑ لیں گے۔ ترجمان پنجاب حکومت فیاض الحسن چوہان نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ملزمان کی کچھ تصاویر شیئر کیں اور لکھا کہ گریٹر اقبال پارک واقعے میں ملوث ان کرداروں کی اطلاع اعلیٰ حکام کو دے دی گئی ہے۔ پولیس حکام نادرا اور پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی مدد سے سائنٹفک طریقے سے ان سمیت تمام افراد کو ٹریس کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ’گریٹر اقبال پارک میں خاتون سے دست درازی کا واقعہ انتہائی شرمناک اور بہیمانہ فعل ہے، اسلامی اقدار کے حامل ہمارے مشرقی معاشرے میں خواتین عزت و احترام کے اعلیٰ درجے پر ہیں۔ چند سو افراد کے قبیح فعل نے پورے معاشرے کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔
شرمناک واقعے کی ایف آئی آر کاٹی جا چکی ہے، اور ویڈیو کی مدد سے ملوث ملزمان کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے مطابق ملزمان کو سخت سزا دی جائے گی۔ حکومت ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائے گی تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں۔ وزیر اعلیٰ کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا اظہر مشوانی نے کہا ہے کہ عاشورہ پر ڈیوٹی کے باوجود پولیس ملزمان کی گرفتاری کے لیے ویڈیو اور سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لے رہی ہے۔ ’ایف آئی آر میں سخت اور ناقابل ضمانت جرائم کی دفعات شامل کر دی گئی ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ دن دہاڑے یہ واقعہ مزید خوف کا باعث بنا ہے اور یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب پاکستان میں لوگ پہلے ہی ’نور مقدم اور قرت العین جیسے واقعات کے صدمے میں ہیں۔
‘ ایک بیان میں اس نے حکام سے فوری طور پر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔یہ ویڈیوز سامنے آنے کے بعد لاہور پولیس نے متاثرہ ٹک ٹاکر درخواست پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے اپنی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ منگل کے روز متاثرہ لڑکی نے اس واقعہ کے حلاف لاہور کے تھانہ لاری اڈہ میں درخواست دے دی تھی۔ اس افسوس ناک واقعے نے بہت سارے پاکستانیوں کو مایوس کیا ہے۔ سیاسی رہنما ہوں یا شوبز کے ستارے، سبھی اس پر معاشرے میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والے ایسے انگنت واقعات پر غمزدہ ہیں۔ یہ واقعہ ہر پاکستانی کے لیے باعثِ شرم ہے اور ہمارے سماج کی پستی کو بیان کرتا ہے۔ ذمہ داروں سے انصاف ہونا چاہیے، پاکستانی خواتین خود کو غیرمحفوظ سمجھ رہی ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کا تحفظ اور مساوی حقوق کو یقینی بنائے۔