میں اب مر جاؤں گا ۔۔ صدام حسین کی بیٹی کون ہے اور دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے اپنی بیٹی کو خط میں کیا پیغام دیا؟
مجھے پورا یقین ہے کہ یہ لوگ میری موت کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں، یہ الفاظ تھے مرنے سے کچھ دن پہلےعراق کے صدر صدام حسین کے۔
پوری دنیا بس صدام حسین کو عراق کے صدر کی حیثیت سے جانتی ہے اور اس سے زیادہ انہیں مگر آج ہم بتائیں گے کہ انہوں نے اپنی پیاری بیٹی رغد کو آخری دنوں میں خط میں کیا لکھا تھا۔
صدام حسین کی بیٹی رغد کا ایک ٹویٹ سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے اپنے والد کے پرانے خطے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ میری موت اب یقینی ہے اور مجھے پورا یقین ہو چکا ہے کہ لوگ میری موت کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں لیکن اللہ جو چاہے کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
بیٹی ارو گھر والوں کیلئے لکھے گئے پیغام میں انہوں نے کہا کہ میرے پاس ان کا جرنیل آیا ہے جس کے ساتھ ان کا ترجمان بھی تھا۔ اس نے مجھے ایک کاغذ تھمایا اور کہا کہ میں اس پر عراقی قوم کے نام پیغام لکھوں کہ وہ ہتھیار پھینک دے، مسلح جدوجہد ترک کر دے۔
رغد صدام اس سے قبل بھی اپنے والد کے ہاتھ سے لکھے پیغامات اور قصیدے شائع کرتی رہی ہے۔
مزید یہ کہ آج سے کچھ ماہ قبل بھی صدام حسین کی موت سے پہلے کا ایک واقعہ سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے انگریز پہرے دار سے کوٹ منگوایا تھا تو دنیا حیران ہو گئی کہ انہوں نے پہننے کیلئے کوٹ کیوں منگوا لیا ہے؟
صدام حسین کی پھانسی کی کارروائی کی نگرانی کرنے والے فوجیوں نے یہ راز اب لوگوں تک پہنچائے ہیں۔ ایک سہ پہر امریکی پہرے دار سے صدام حسین نے کہا کہ مجھے کوٹ لا دو۔ انکی خواہش پر امریکی فوجیوں نے انہیں گرم کوٹ لا دیا اور پھر حیرانگی سے پوچھا کہ یہ کوٹ کیوں پہنا ہے جس کے جواب میں صدام حسین نے کہا کہ آج سردی بہت ہے۔
تو کہیں ایسا نہ ہو کہ موت سے پہلے میرا جسم کانپ جائے اور عراق کے لوگ سمجھیں کہ انکا لیڈر موت سے ڈر رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ اور صدام حسین کی پھانسی سے قبل کے لمحات جب سے سامنے آئے ہیں تب سے ہی ایک بحث چھڑی ہوئی ہے کہ یہ عین اس وقت کی بات ہے کہ جب انہیں پھانسی دینے کیلئے لیے جایا جا رہا تھا، لیکن اس بات میں 100 فیصد صداقت نہیں۔ ہاں یہ بات پھانسی سے پہلے کی ہے ضرور۔
مذکورہ فوجی کے مطابق صدام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں سکون سے سرشار تھے اور ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی۔ فوجی نے بتایا ہے کہ صدام حسین نے اپنی پسند کا ناشتہ طلب کیا اور اس کے بعد وضو کر کے نمازِ فجر ادا کی۔
پھر وہ پھانسی کے فیصلے پر عمل درامد کے انتظار میں اپنے بستر پر بیٹھ قرآن کریم کی تلاوت کرنے لگے۔
فوجی کے مطابق امریکی فوجی اہل کار صدام کی مسکراہٹ سے بہت زیادہ خوف محسوس کر رہے تھے اور موت کا سامنا کرتے ہوئے صدام کے انتہائی سکون کے سبب ان فوجیوں کا گمان تھا کہ عنقریب کوئی بم دھماکا کر دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ صدام پر تین سال تک مقدمہ چلایا جاتا رہا اور 30 دسمبر عید الاضحیٰ کے روز انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔