نادرا: ولدیت کے بغیر بچوں کی رجسٹریشن کی اجازت، مگر شناختی کارڈ میں والد کے خانے میں کس کا نام لکھا جائے گا؟
بچوں کو اکیلے پالنا تو ایک ماں کے لیے امتحان ہوتا ہی ہے لیکن اگر والد کی جانب سے بچوں کی شناختی دستاویزات کے لیے تعاون نہ کیا جائے تو بچوں کو معاشرے میں ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کے لیے باعث اذیت ہوتے ہیں۔‘
اسلام آباد کی رہائشی واجدہ کو کئی سال کی محنت کے بعد دو ماہ پہلے سفارت خانے کی مدد سے اپنے شوہر کا شناختی کارڈ نمبر دیا گیا اور پھر انھوں نے اپنی چودہ سال کی بچی کا ’ب‘ فارم بنوایا۔
واجدہ کہتی ہیں کہ کاش یہ جو نئے قانون کی بات ہو رہی ہے اس سے اکیلی ماں کو آسانی ہو۔
واضح رہے کہ پاکستان میں اب بچوں کی شناختی دستاویزات بناتے ہوئے ان کی ماں کی ازدواجی حیثیت کو نہیں دیکھا جائے گا اور نہ ہی اس کے لیے والد کا حوالہ ضروری ہو گا۔
اس حوالے سے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا ہے جس پر ترجیحی بنیادوں پر عملدرآمد کرنے کو کہا گیا ہے۔
خیال رہے کہ پیدائش کے بعد بچوں کے ب فارم سے لے کر ان کی تعلیمی و شناختی دستاویزات میں والد کا نام لکھنا ضروری ہوتا ہے۔
واجدہ سنگل پیرنٹ ہیں یعنی ان ماؤں میں شامل ہیں جنھوں نے اپنے بچوں کی اکیلے پرورش کی ہے اور جن کو اپنے بچوں کی شناختی دستاویزات بنانے میں مشکلات کا سامنا رہا۔
وہ کہتی ہیں ’ویکسینیشن کے لیے ب فارم لازم تھا لیکن میری بیٹی کو ب فارم نہ ہونے کی وجہ سے ایک ماہ تک سکول والوں نے سکول آنے کی اجازت نہیں دی تھی۔‘
’سکول میں میری بیٹی سے ٹیچر سوال کرتیں کہ تمھارے والدین میں علیحدگی کیوں ہوئی۔ ب فارم کیوں نہیں بن سکتا۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ سوالات میری بیٹی کے لیے بہت تکلیف دہ ثابت ہوتے۔‘
نادرا کے حکمنامے میں کیا ہے؟
نادرا کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق سنگل پیرنٹ کا خانہ ڈیٹا اینٹری میں شامل کیا جائے یعنی بچوں کی شناختی دستاویزات پر والد کا نام نہیں لکھا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ ایسے بچوں کے والد کا نام سسٹم کی جانب سے والد کے خانے کے لیے مہیا کیے جانے والے نام (فرضی) پر لکھا جائے۔
نادرا کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچوں کی شناختی دستاویزات بناتے ہوئے ماں کی ازدواجی حیثیت کو نظر انداز کیا جائے گا یعنی یہ نہیں لکھا جائے گا کہ بچے کی والدہ اکیلی ماں ہیں۔
’یہ اقدام بچوں کو منفی معاشرتی رویوں سے بچانے کے لیے کیا گیا‘
نادرا حکام کے مطابق یہ اقدام بچوں کو منفی معاشرتی رویوں سے بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین نادرا طارق ملک نے اس فیصلے کے حوالے سے بتایا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ سنگل پیرنٹ (اکیلی مائیں) یعنی جس کا شوہر نہیں، طلاق ہو گئی یا علیحدگی ہو گئی ہے یا والد نے بچے کو اپنایا نہیں تو ان کے بچوں کی رجسٹریشن میں آسانی پیدا کی جائے۔
یعنی اب وہ خواتین جو ریپ کا شکار ہوتی ہیں یا جن کے بچوں کے والد انھیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں یا لاتعلقی اختیار کرتے ہیں ان کے بچوں کے لیے اپنے شناختی دستاویزات بنانے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی۔
تو پھر والد کے خانے میں کس کا نام لکھا جائے گا؟
چیئرمین نادرا کہتے ہیں یہاں ہم نے موجود سہولت کو بھی بطور مثال دیکھا کہ ہم یتیم بچوں، ٹرانسجینڈر کو بھی تو رجسٹر کرتے ہیں، گارڈین شپ کے تحت بچے رجسٹرڈ ہوتے ہیں، ایسے بچے جن کے والدین لاپتا ہوتے ہیں ان کے لیے بھی ایک سسٹم ہوتا ہے ڈیٹا بیس سے ایک نام جاری ہوتا ہے، تو ایسے میں اکیلی ماں کے بچوں کو سزا نہیں دینی چاہیے کہ اگر ان کا باپ انھیں چھوڑ گیا ہو تو ان کی رجسٹریشن نہ کی جائے۔‘
ہم نے کہا ہے کہ ماں کا شناختی کارڈ لایا جائے اور بچے کی ماں کے خاندان یا اس سے باہر کوئی بھی گواہی دے دیں قانون شہادت کے مطابق کہ یہ بچہ اسی خاتون کا ہے تو بچے کی رجسٹریشن ہو جائے گی۔
ادارے کے حکام کا کہنا ہے کہ ہم اکیلی ماؤں سے یہ بھی درخواست کر رہے ہیں کہ اپنے بچے کا برتھ سرٹیفکیٹ بھی بنوا لیں جو کہ شناخت کا ایک ثبوت ہوتا ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں والدین کو بچے کی پیدائش کے بعد 45 دن کے اندر رجسٹر کروانا چاہیے لیکن یہاں 18 سال کی عمر میں بھی بچے شناختی دستاویزات بنوانے کے لیے خود آتے ہیں۔
چیئرمین نادرا کہتے ہیں کہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اکیلی ماؤں کی تعداد 30 لاکھ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کے مسائل سنے، چھ ماہ تک ہم نے گاؤں گاؤں جا کر مختلف صوبوں میں خواتین سے بات کی اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر جب لوگوں کی بات سنی۔ چیئرمین نادرا طارق ملک کہتے ہیں کہ بچوں کا حق ہے کہ ریاست ان کو گنے اگر ہم ان کو گن نہیں سکتے تو ہم اپنی قوم کی ایک نسل کیسے تیار کر سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’سعودی اور ایرانی علما سے ایک بار فتویٰ لیا گیا تھا جن کا کہنا تھا کہ رجسٹریشن بچوں کا حق ہے۔‘
’اس سلسلے میں ہم نے خاتون سربراہ کے ماتحت ایک انکلوسیو رجسٹریشن (آئی آر) ڈیپارٹمنٹ بنایا تاکہ خاتون کے ذریعے بھی خواتین کے مسائل سنے جائیں کیونکہ ہم مردوں کی عینک لگا کر عورتوں کے مسائل دیکھتے ہیں جو تکنیکی طور پر ہی غلط ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے اس سلسلے میں قانون سے متعلق ڈیپارٹمنٹ سے بھی بات کی تاکہ مسئلہ نہ ہو۔‘
واضح رہے کہ نادرا کی جانب سے حکم نامہ آٹھ مارچ کو جاری کیا گیا ہے اور طارق ملک کہتے ہیں کہ اس کے بعد خواتین کی رجسٹریشن میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے اور گذشتہ ایک ہفتے میں 85 ہزار 253 خواتین کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے، جو دیہی علاقوں میں ہیں۔
چیئرمین نادرا کہتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ شہروں کے مسائل ہیں لیکن ایسا نہیں گاؤں میں بھی یہ مسائل ہیں۔
انکلوسیو رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والی ریما ریما آفتاب کہتی ہیں کہ مسئلہ جتنا نظر آتا ہے اس سے بہت بڑا ہے اور اس کے بارے میں ہم حتمی اعداو شمار نہیں شیئر کر سکتے درخواستیں تو آتی تھیں لیکن ہمارے پاس اس مسئلے کے حل کے لیے پالیسی نہیں تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ جہاں یہ ایک مسئلہ ہے وہیں دوسری جانب اکیلی ماؤں کے حوالے سے معاشرتی رویہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
’اگر ہم کہیں کہ کتنے ٹرانسجینڈر ہیں تو یہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح ہر اعدادو شمار یکساں نہیں ہیں۔‘