نبوت سے پہلے
بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا کی معیت میں ملک شام کا پہلا سفر کیا اور اپنی معاش کے لئے تجارت کو ذریعہ معاش بنایا 580ء کے درمیان جنگ فجار کا واقع پیش آیا، چونکہ قریس اس میں حق پر تھے اس لئے آپ ﷺ نے اس جنگ میں اپنی قوم کا ساتھ دیا، انجامِ کا راس کا خاتمہ ایک معاہدہ بنام “حلف الفضول” پر ہوا۔ اس معاہدے میں آپﷺ بھی شریک رہے کیونکہ اس معاہدے میں مظلوم کی حمایت اور اس کو حق دلانے کی دفعہ شامل تھی۔
پچیس سال کی عمر میں بحیثیت نگران حضرت خدیجہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی خواہش پر ان کا نکاح آنحضرت سے طے ہوا، خطہ نکاح آپ ﷺ کے چچا ابوطالب نے پڑھا۔
حضرت خدیجہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے آپؐ کے دو صابزادے قاسم اور عبداللہ پیدا ہوئے اور بچپن ہی میں فوت ہوگئے، بڑے صاحبزادے کے نام سے آپ کی رکنیےت ابوالقاسم مشہو ر ہے اور چار صاحبزادیاں سّیدہ زینب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ، سّیدہ رقیہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ، سّیدہ اُٗمِ کلثوم(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور سّیدہ فاطمہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ، پیدا ہوئیں۔جن میں پہلی حضرت ابوالعاص (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے اور دوسری اور تیسری سّیدنا حضرت عثمان غنی (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے بیاہی گئیں اور حضور ﷺ کی حیات ہی میں رحلت فرماگئیں۔جبکہ چوتھی اور سب سے چھوٹی صاحبزادی خاتون جنت کا نکاح سّیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے ہوا اور آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی رحلت کے چھ ماہ بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا، خاندانِ سعادت انہی سے چلتا ہے، اوّل الذکر صاحبزادیوں کی اولاد زندہ نہیں رہی۔