نبوت کے بعد

جب آنحضرت ﷺ کی عمر مبارک چالیس سال ہوئی تو آپ ؐ  مکمہ معظمہ  کے قریب غارِ حرا میں مصروفت عبادت تھے کہ ستائیس یا چویبس رمضان المبارک کی لیلتہ القدر میں  210ء  جبریل ؑ امین وحی الہٰی قرآنِ پاک کا پہلا حصہ لے کر تشریف لائے۔

اب آنحضرت ؤ تاج ِ نبوت سے سرفراز تھے اور سارے جہان کو کفرو شرک اور ظلم و مصیبت سے بچانا آپؐ کے فرائض منصبی میں شامل ہوگیا۔آپ ﷺ نے تیرہ سال مکہ معظمہ میں فرائض رسالت انجام دیئے اور اس راہ میں  سخت جانگسل شائد اور مصائب برداشت کئے اس کے بعد آپ ﷺ نے مدینہ طیبہ کو ہجرت فرمائی اور وہاں دس سال اشاعت و تبلیغ اسلام کی ذمہ داریاں کماحقہ پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔

اسوہ حسنہ

“یقیناً تمارے لیئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں اچھا نمونہ ہے”

انبیا کرام صلوات اللہ علیم کی زندگیوں میں ہر طرح کے نمونے موجود ہیں۔مگر مثالی اور قابل تقلید نمونہ جو تمام شعبہ ہائے زندگی پر محیط ہو وہ صر ف نبی امی ﷺ کی مبارک اور پاکیزہ زندگی  ہے جس میں صلح و جنگ و فر ق سلطنت، دولت وحشت و جہانبانی، حکمرانی، واز دواج و تجرو اور خدا اور بندوں کے تعلقات و حاکمیت محکمویت و سکون غضب ، جلوت وخلوب و جلال و جمال یعنی زندگی کے ہر پہلو کے متعلق عملی مثال مل سکتی ہے، اسی لئے آپﷺ کے ارشاد کی روشنی میں دیکھا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں