نسلی مرد اور عورت کی پہچان ان نشانیوں سے لگائےایسی نشانیاں کسی نے نہیں بتائی ہو ں گی
جلنے والے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو سورج کی طرح روشنی پھیلاتے ہیں۔ دو سرے وہ جو کچرے کی طرح دھواں پھیلاتےہیں۔ مرد محبت کاسمندر ہے ۔ عورت چاہتی ہے۔ وہ اکیلی شارک مچھلی بن کر اس میں رہے۔ جبکہ مرد چاہتا ہےکہ اس میں بہت ساری مچھلیاں موجود ہوں۔
محبت میں مبتلا ہونا ایسے ہی ہے جیسے اونچی جگہ سے چھلانگ لگانا عقل کہتی ہے کہ نہ لگاؤ گر جاؤ گے ۔ دل کہتا ہے لگا دو تم اڑنے لگو گے۔ مرد جب محبت کرنے پر آئے تو ذلتوں اور اپنی عزت کی پرواہ نہیں کرتا لیکن جب عورت محبت کرنے پر آتی ہے تو مرد بے وفا بن جاتا ہے۔ مرد کو کچھ نہیں چاہیے ہوتا ہے۔
نہ عورت ، نہ پیسہ ، نہ اولاد، نہ شہرت اسے تو بس ضد ہوتی ہے۔ سب میرا ہو۔ اور کسی کو نہ ملے ۔ بس سمیٹ لوں اور ایک جگہ پر رکھ کر بھو ل جاؤں۔ کبھی کبھی آپ کو بڑا مان ہوتا ہے۔ کہ یہ بندہ مجھے ضرور سمجھے گا۔ کوئی اور سمجھے یا نہ سمجھے اور پھر وہی آپ کو سب سے زیادہ غلط سمجھ لیتا ہے۔ ایک باپ نے اپنی بیٹی سے مذاق میں پوچھا: تم مجھ سے زیادہ محبت کرتی ہو یا اپنے خاوند سے تو اس نے جواب دیا یہ تو مجھے پتا ابو پر جب میں آپ کو دیکھتی ہوں تو اپنے خاوند کو بھول جاتی ہوں۔ اورجب اپنے خاوند کو دیکھتی ہوں تو پھربھی آپ کو یادرکھتی ہوں۔
کوئی بھی انسان برا نہیں ہے۔ بلکہ برے توہم خود ہیں۔ عیب تلاش کرنے کی بجائے اپنا ضمیر تلاش کرنا چاہیے۔ نسلی مرد کی پہچان اس کی نوکری، سٹیٹس یا گاڑی سے ہوتی ہے۔ ویسے ہی نسلی عورت کی پہچان اس کے اخلاق سے ہوتی ہے۔ جتنا پیارااخلاق ہوگا ، عورت کو معاشرے میں اتنا اعلی ٰ مقام ملے گا۔ اگرمحبت کرنا ایک کھیل ہوتا تو یہاں ہرشخص جیت کی ضد میں اپنی محبت کو کبھی نہ ہارتا۔ اور جن کی محبت سچی ہوتی ہے۔ اللہ کی رضاہمیشہ انکے ساتھ ہوتی ہے۔ کبھی کبھی سچ کڑوا لگتا ہے ۔ لیکن سچ سچ ہوتا ہے۔ اس کی بجائے اگر ہم جھ وٹ کو اپنی زندگی میں جگہ دیں تو ہماری زندگی میں مشکلات بڑھتی چلی جائیں گی۔