نصیحت

ابا کلرک تھے، تنخواہ کم تھی، پھر بھی ان کی خواہش تھی میں پڑھ لکھ جائوں۔ تاہم جب اسکول جاتی، وہ تلقین کرتے۔ بیتی تعلیم حاصل کرنے جا رہی ہو تو اپنے اسی مقصد پر نظر رکھنا، اس کے سوا کسی اور خیال کو دل میں جگہ مت دینا۔ میں نے بھی ان کی نصیحت پلے باندھ لی اور پڑھائی کے سوا کسی طرف دھیان نہ دیا، تبھی اعزازی پوزیشن سے میٹرک پاس کرلیا۔

یہ میرے والدین کی دعا ہی تھی جو مجھے اول پوزیشن کا اعزاز ملا۔

اب یہ میرا حق بنتا تھا کہ کالج میں داخلے لوں۔ والد بھی یہی چاہتے تھے۔ مگر کرتے تھے کہ تین بیٹیوں کے باپ تھے اور زمانہ خراب تھا۔ اس شرط پر کالج میں داخلے کی اجازت ملی کہ میں سہیلیوں کے چکروں میں پڑوں گی اور نہ ان کی باتوں میں آئوں گی۔ یہ ان کا تکیہ کلام تھا کہ زمانہ خراب ہے اور اپنے قدم مضبوطی سے سیدھے راستے پر رکھنا ورنہ جو لڑکیاں اس بات کا خیال

نہیں رکھتیں وہ اپنی زندگی تباہ کرلیتی ہیں۔ میں ابا کی باتوں کو غور سے سنتی اور دل میں عہد کرلیتی کہ صرف پڑھائی سے غرض رکھوں گی اور محبت وغیرہ کے چکروں میں نہ پڑوں گی۔ اماں کتیں، لڑکے بھولی بھالی لڑکیوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور محبت کے کھیل جھوٹے ہوتے ہیں۔ تبھی میں سوچتی کہ اگر محبت کے کھیل جھوٹے ہوتے ہیں

تو یہ جھوٹے کھیل کھیلنے والوں کو کیا ملتا ہے؟ میری دونوں چھوٹی بہنیں بھی اسکول پڑھنے جاتی تھیں لیکن ان کا اسکول ہمارے محلے میں ہی تھا لہذا والدہ ان کو چھوڑنے اور لیئے خود جاتی تھیں لیکن مجھے اکیلی کالج جانا پڑتا تھا۔ ابا تو صبح آفس چلے جاتے۔ کالج گھر سے کچھ دوری پر تھا تاہم مجھے پیدل ہی جانا ہوتا تھا۔ تبھی اماں آه بهر کر کہتیں۔ اے کاش! ہمارا سنیر گم نہ ہوتا تو آج وہ تجھے کالج چھوڑنے جاتا اور

مجھ کو تیری فکر سے نجات مل جاتی۔

قصہ یہ کہ ہمارا ایک ہی بھائی تھا جو مجھ سے تین برس بڑا تھا۔ ایک دن گلی

میں نکل گیا ،پھر لوٹ کر نہ آیا۔ خدا جائے اس کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل

گیا۔ بہت ڈھونڈا مگر اس کا سراغ نہ مل سکا۔ اس غم نے میرے ماں باپ دونوں
کا کلیجہ خون کر ڈالا تھا۔ قسمت پر بس نہیں، کیا کر سکتے تھے۔ بیٹے کی
گمشدگی کا غم دل میں دبا لیا اور صبر کر کے بیٹھ گئے۔
ہمارے کالج میں ایک بھوری آنکھوں والا نوجوان کلرک بھرتی ہو کر آیا،
صورت شکل سے اچھا تھا اور بات چیت بھی طریقے سلیقے سے کرتا تھا۔ جلد

ہی اس نے کالج والوں کے دلوں میں گھر کرلیا۔
مجھے کالج سے ماہانہ تعلیمی وظیفہ ملتا تھا جو میرٹ اسکالرشپ کہلاتا تھا۔
میں ہر ماہ اسی وظیفے کی وصولی کے سلسلے میں اس شربتی آنکھوں والے
کلرک کے پاس جاتی تھی۔ جب اسے مخاطب کرتی، وہ کھو سا جاتا اور میں
اس کے اس کھون کھوئے انداز میں کھو جاتی تھی۔ مجھے لگتا ہم دونوں کے
بیچ کوئی ایسا رشتہ ہے کہ اسے مجھ میں اور مجھے اس میں کشش محسوس
ہوتی ہے۔ یہ عجیب سا تاثر تھا کہ جس کو نہ تو میں سمجھ سکی اور نہ کوئی

نام ہی دے سکتی تھی۔
اب جب بھی میں اس کلرک کی آنکھوں میں دیکھتی، ابا کی نصیحت ایک
تازیانہ بن کر میرے ذہن پر لگتی اور میں چونک جاتی۔ پھر ماں کی بات یاد
آئی۔ ’’بیتی محبت کے کھیل جھوٹے ہوتے ہیں، اس لئے تم کسی کی باتوں میں
مت آنا۔ اگر کوئی تیرے دل کو اچھا لگے تو مجھے بتا دینا۔ ان باتوں کو یاد
رکھنے کی وجہ سے یہ بھی نہ جاننا چاہتی تھی کہ محبت کے کھیل کی ابتدا
کب اور کہاں سے ہوتی ہے اور انتہا کہاں پر۔ ایک دن یہ بات میں نے اپنی
ایک سہیلی سے پوچھی تو وہ بولی۔ زارا پاگل، محبت کا انکشاف ہی اس وقت
ہوتا ہے جب وہ دل میں گھر کرکے بیٹھ جاتی ہے۔ پھر اس کو گھر بدر کرنا
مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال میرا بھی اس شربتی آنکھوں والے نوجوان
کو دیکھنے سے ہوتا۔ دل میں کسک اور اک خلش سی مجھے تکلیف دیتی۔ لگتا
کہ اس شخص سے میرا رشتہ ہے ضرور ورنہ کیوں یہ غیر آدمی مهے اپنا سا

لگتا ہے۔

ایک دن اس نے کہا۔ آپ کو دیکھ کر مجھے کوئی اپنا یاد آنے لگتا ہے۔ کون؟ یہ
میں نہیں جانتا۔ آپ سامنے آتی بو زارا تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے
کوئی بھولا ہوا خواب یاد آرہا ہو۔ خدا جانے ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میں ہر وقت آپ
کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ کیا آپ مجھے اپنے گھر لے چلیں گی اور اپنے

والدين ، سلوائیں گی؟
آپ کو تو گھر نہیں لے جاسکتی کیونکہ اس بات پر ابا مجھے کالج سے ہی
نکال لیں گے۔ ہاں اپنی والدہ کو ہمارے گھر بھیج دیجئے تو شاید آپ کا مسئلہ
حل ہو جائے۔ وہ آپ کے گھر نہیں آسکتیں کیونکہ بیمار ہیں۔

جس دن اس نے یہ بات کہی، اس کے بعد سے میں کھوئی کھوئی رہنے لگی۔
امی نے بھانپ لیا۔ پوچھا کہ کیا بات ہے زارا کچھ دنوں سے تم کو دیکھ رہی
ہوں کہ تمہارا دھیان کہیں اور ہوتا ہے، کیا پریشانی ہے تم کو، مجھے بتادو۔
میں نے کہا۔ امی ہمارے کالج میں ایک کلرک ہے وہ مجھے اچھا لگتا ہے، اس
میں مجھے کشش محسوس ہوتی ہے۔ اور وہ بھی یہی بات کہتا ہے مجھے لگتا
ہے تمہارا میرا کوئی ایسا رشتہ ہے جو تم کو دیکھ کر میں خود کو بھول جاتا
ہوں۔ ماں وہ ہمارے گھر آنا چاہتا ہے اور آپ سے ملنا چاہتا ہے۔
میں یہ بات کہہ رہی تھی کہ آیا آگئے اور انہوں نے میری ساری بات سن لی،
بس وہ تو بگر گئے۔ سخت خفا ہوئے کہ تم نے میری نصیحت بھلا دی جبکہ
میں نے تم کو کہا تھا کہ کالج جا رہی تو صرف پڑهائی میں دھیان لگانا اور

کسی طرف دھیان نہ دینا۔

میں نے بہت کہا۔ ابا سیرا دھیان صرف پڑھائی کی طرف ہے۔ ایک بات جو
پریشان کر رہی تھی، اسی کہہ دی۔ یہ بات صرف محسوس کرنے کی حد
تک ہے۔ مگر انہوں نے کب میری بات سننی تھی۔ فیصلہ سنا دیا کہ زمانہ
خراب ہے اور اس کے دماغ میں بھی خلل آ رہا ہے لہذا اب کے بعد یہ کالج
نہیں جائے گی۔ پڑھائی بند۔ ساتھ میں میری دونوں چھوٹی بہنوں کو بھی اسکول
جانے سے روک دیا۔

یہ ایک بڑا نقصان تھا جو میری سادہ لوحی کی وجہ سے ہوگیا۔ میں نہ یہ بات
امی سے کہتی اور نہ یہ دن دیکھنا پڑتا۔ پندرہ دن گزر گئے اور میں کالج نہ
گئی۔ امی بھی میری وجہ سے سخت پریشان تھیں کیونکہ میں ہی نہیں میری
دونوں بہنیں بھی پڑھنے سے رہ گئی تھیں۔

ایک دن دروازے پر بیل ہوئی امی
نے در کھولا۔ سامنے وہی شربتی آنکھوں والا کھڑا تھا۔ والدہ نے پوچھا۔ کون

ہو اور کس سے ملنے آئے ہو؟

میں کالج کا کلرک ہوں اور زارا بی بی سے بات کرنے آیا ہوں۔ کیا بات کرنے

آئے ہو، مجھے بتادو، میں اس کی ماں ہوں۔ امی نے ناگواری سے کہا۔ زارا بی

بی کا تعلیمی وظیفہ آیا ہوا ہے، وہ وصول کرنے نہیں آئیں۔ خیریت تو ہے؟ یہی

معلوم کرنے آیا تھا۔ بڑے آئے خیریت معلوم کرنے والے، تم ہوتے کون ہو۔۔۔

میں خوب جانتی ہوں تمہارے جیسوں کو، بہانے سے گھر تک آگئے، جانتے ہو

کہ تمہاری وجہ سے زارا کو ہی نہیں، ان کے والد نے میری دوسری دو

چھوٹی لڑکیوں کو بھی تعلیم سے بٹالیا ہے۔ والدہ نے غصے سے اسے ڈانٹا۔

میں نے ایسا کیا کیا ہے۔ وہ حیران ہو کر بولا۔
میں نے جو کلرک کو سامنے دیکھا تو ماں سے منت کرنے لگی کہ ان کو مت
ڈانٹو۔ یہ میرے بھلے کی خاطر آئے ہیں۔ اگر میں وظیفہ والے فارم پر دستخط
نہ کروں گی تو میرا وظیفہ بند ہو جائے گا۔ ہر ماہ اس فارم پر دستخط کرنے

ہوتے ہیں ماں۔ ان کو اندر بلالو۔
ابا گھر پر نہ تھے۔ جانے کیا سوچ کر اماں نے اس کو گھر بلالیا۔ پھر وہ اس
کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگیں جیسے کہ چہرہ پڑھ کر دل کا حال
جاننا چاہتی ہوں یا پہچان رہی ہوں۔ کسی بھولی ہوئی صورت کو یاد کر رہی
ہوں۔ کہاں رہتے ہو تم۔ تمہارے ماں باپ کون ہیں؟ مجھے اپنے ماں باپ کی
خبر نہیں ہے۔ ایک نیک دل خاتون نے پالا ہے۔ اسی کو ماں جانتا ہوں۔ یہ کیا
سوال کیا۔ قصہ تو مجھے معلوم نہیں۔ ہاں اگر آپ میری امی
سے ملیں گی تو مجھ کو خوشی ہوگی۔ ٹھیک ہے، میں تمہاری امی سے ملوں
گی۔ اپنا پتا لکھ کر دے جائو۔ اس نے اپنا پتا لکھ کر امی کو دیا اور مجھ سے
فارم پر دستخط کروا کر چلا گیا۔ حیرت زدہ تھی کہ ماں نے کیسے اس کو یہ
کہہ دیا کہ تمہاری ماں سے ملوں گی اور کیا سوچ کر…؟ اس بات کو نہ سمجھ
سکی۔
قصہ ہے؟ او

اگلے روز اس کے دیئے پتے پر میں اور اسی اس کے گھر گئیں۔ اس کی ماں
واقعی بیمار تھی اور وہ بستر پر دراز تھی۔ کمزوری کی وجہ سے اٹھنے
بیٹھنے سے قاصر تھی۔ جب والدہ نے اس سے اس کے بیٹے کے بارے میں
پوچھا تو اس نے بتایا۔

میرے شوہر ایک روز ایک لڑکے کو فقیروں کے اڈے سے خرید کر لائے
ے تھے۔ اس وقت یہ بمشکل چار برس کا ہوگا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بچہ ان کو
کہیں روتا ہوا ملا تھا۔ اس کے ماں باپ کا آتا پتا معلوم نہ تھا۔ لہذا انہوں نے اس
کو اپنے پاس رکھ لیا چونکہ غربت کی وجہ سے پالنے سے مجبور تھے لہذا
اس کو کسی خوشحال جوڑے کو وہ فروخت کر دینا چاہتے تھے۔ تبھی میرے
شوہر نے گداگر سے خرید لیا اور پھر تمام قریبی تھانوں سے رابطہ کیا مگر
بچے کے والدین کا سراغ نہ ملا۔ ہماری کوئی اولاد نہ تھی تو ہم نے ہی اس کو
اپنا بیٹا بنا لیا اور اس کا نام گلفام رکھ دیا۔
گلفام کی اسی نے بتایا کہ میرے شوہر فوت ہو چکے ہیں۔ وہ گلفام – بہت پیار
کرتے تھے۔ میرے پاس اس وقت کی تصویریں بھی ہیں جب یہ ہمارے گھر آگیا
تھا۔ ہم نے یہ تصویریں اخبارات میں دی تھیں مگر کسی نے رابطہ نہ کیا۔ اس
کے وہ کپڑے بھی اس گداگر سے لے لئے تھے جو وہ اس وقت پہنے ہوا تھا
جب یہ گداگر کو ملا تھا۔ وہ کپڑے میں نے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔
یہ سن کر امی کا دل دھک دھک کرنے لگا، میں بھی پریشان ہو گئی۔ دل سے
دعا نکلی خدا کرے اسی ان کپڑوں کو پہچان لیں۔ خدا کرے یہ میرا کھویا ہوا
بھائی منیر بی بو اور میری ماں کے دل کو سکون مل جائے۔ مگر دل کہتا تھا
کہ ضروری نہیں، یہ میری ماں کا کھویا ہوا منیر ہی ہو۔ دنیا میں ہزاروں بچے
کھو جاتے ہیں، وہ پھر کب اپنے ماں باپ کو مل پاتے ہیں۔ یہ تو بس ایک
انہونی سی بات ہے۔ جب اس خاتون نے وہ کپڑے اور گلفام کے بچپن کی
تصویر ماں کو دکھائی تو وہ کپڑوں کو آنکھوں سے لگا کر رونے لگیں اور
تصویر کو غور سے دیکھا تو بولیں۔ ہاں یہی تو ہے میرا منیر جو بچپن میں
کھو گیا تھا۔ گلفام میرا بچھڑا ہوا بھائی منیر احمد، یقین نہ آ رہا تھا۔ سوچنے
لگی صدشکر میں نے اپنے والد کی نصیحت کو نہ بھلایا تھا ورنہ شاید مجھ پر
بجلی گر پڑتی۔ میں نے راستی کے رستے پر مضبوطی سے قدم جمائے رکھے
تھے تبھی تو قدرت نے اتنا بڑا انعام ہم کو دیا کہ ہمارے بچھڑے ہوئے بھائی
کو ہم سے ملادیا۔ یہ خوشی جو ہمارے نصیب کا انعام ہی تھی ہم کو مل

گئی۔

والد نے جب منیر کو گلے سے ! لگایا وہ سجدہ ریز ہوگئے اور ہم تینوں بہنوں کو یہ انعام دیا کہ ہم پر پھر سے تعلیم کے در کھول دیئے۔اب جب میں کالج جاتی تو فخر سے چلتی تھی کیونکہ میرا بھائی میرے ساتھ ہوتا تھا جو مجھے کالج ساتھ لے کر جاتا اور پھر ساتھ لے کر آتا تھا۔ اس کی منہ بولی ماں اکیلی رہ گئی تھی اور بیمار بھی تھی تو اسی ابو اس کو اپنے گھر لے آئے اور پھر اس مہربان خاتون کا انتقال بھی ہمارے گھر ہوا جس کو منیر نے اپنے ہاتھوں قبر میں اتارا اور کفن دفن کا انتظام کیا۔ وہ اب بھی ایک بیٹے کی طرح ان کی قبر پر فاتحہ اور پھول چڑھانے جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں