نوجوان لڑکیوں کا موٹر سائیکل چلانا ضرورت ہے یا شوق۔۔ جانیے خواتین کے ٹرانسپورٹ مسائل کیا ہیں اور انھیں کس طرح حل کیا جاسکتا ہے؟
“آج پھر دیر ہوجائے گی“ علیشباہ نے موبائل میں ٹائم دیکھتے ہوئے سوچا
گھر سے وقت پہ نکلنے کے باوجود دیر سے دفتر پہنچنا علیشباہ کا روزانہ کا معمول تھا۔ صبح 9بجے دفتر پہنچنے کے لئے وہ ساڑھے 6 بجے اٹھتی تھی اور روزانہ آدھا گھنٹہ لیٹ ہوتی تھی اور اس دیر کی وجہ ٹریفک جام اور مطلوبہ بس کا وقت پر نہ آنے جیسے مسائل تھے جس میں کم سے کم علیشباہ بے قصور ہونے کے باوجود دفتر سے ڈانٹ بھی کھا رہی تھی۔
صرف علیشباہ ہی کیوں بلکہ خواتین کی اکثریت ہی ٹرانسپورٹ کے مسائل کا شکار نظر آتی ہے ۔ اس مسئلے کا اپنے طور پر سدِباب کرنے کے لئے بڑے شہروں میں آج کل نوجوان لڑکیاں اور خواتین اسکوٹی یا موٹرسائیکل پر سفر کررہی ہیں جنھیں اکثر لوگ شوق کا نام بھی دیتے ہیں۔ اس آرٹیکل میں ہم بات کریں گے کہ خواتین کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کیا ہیں اور کیا موٹڑ سائیکل پر سفر کرنا واقعی صرف شوق ہے یا ان کی ضرورت؟
عوامی ٹرانسپورٹ کے زرائع
2020 کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت کراچی کی آبادی سولہ ملین سے زائد ہے جبکہ ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق شہر کی آبادی تقریبا بیس ملین ہے۔البتہ اس بھاری آبادی، اور ملک میں سب سے زیادہ آمدنی بنانے شہر میں سستی، سرکاری آمدورفت کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں کی تعداد صرف چار ہزار کے آس پاس ہے۔ حالانکہ اتنی بڑی آبادی کو آمدورفت کی سہولت فراہم کرنے کے لئے تقریبا پندرہ ہزار سرکاری بسوں کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ بسوں کی تعداد کم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی حالت بھی انتہائی دگرگوں ہوتی ہے۔ جس میں سفر کرنا شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بسوں کے علاوہ کبھی شہر کراچی میں ریلوے کا ایک منظم نظام بھی موجود تھا جو کہ اب محکموں کے غیر ذمے دارنہ رویوں کے باعث کچی آبادیوں کا مرکز ہے۔
ٹرانسپورٹ ایپلییشنز اور موٹرسائیکل سواری کا رجحان
اس پریشان کن صورتحال سے نمٹنے کے لئے عوام کے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں البتہ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے وہ نجی بسز، کوچز ، وین سروسز یا رکشہ اور چنگ چی پر ہی تکیہ کرنے پر مجبور ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ اس مہنگی سہولت کا فائدہ اٹھانے کے لئے ان کو اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ پرائیوٹ گاڑیوں کے مالکان کو ادا کرنا پڑتا ہے یا پھر بیشتر افراد کسی طرح پیٹ کاٹ کر اپنی ذاتی گاڑی خرید لیتے ہیں جو کہ اس قدیم اور محدود آبادی والے انفرااسٹرکچر پر قائم شہر میں مزید بے ہنگمی کا باعث بنتا ہے۔ نجی گاڑیوں کی بہتات کے سبب سارا وقت کھدی ہوئی ، گڑھے زدہ سڑکوں پر ٹریفک جام رہتا ہے جس کے باعث تمام شہری ہی کوفت کا شکار رہتے ہیں۔
خواتین میں اسکوٹی اور موٹرسائیکل چلانے کا رجحان
اس مسئلے کا ایک حل موٹر سائیکل کے زریعے آنا جانا ہے جس میں ایپلیکیشن کے زریعے ڈرائیور کو موٹرسائیکل پر بلوایا جاتا ہے اور مطلوبہ جگہ تک سواری کی سہولت لی جاتی ہے لیکن خواتین کہ لئے اس سہولت کا فائدہ اٹھانا بھی ممکن نہیں کیونکہ مرد ڈرائیور کی موجودگی میں زیادہ تر خواتین موٹر سائیکل پر نہیں بیٹھنا چاہتیں۔
ان سب مسائل کی وجہ سے پاکستان کے بڑے شہروں میں رہنے والی خواتین میں اپنی مدد آپ کے تحت اسکوٹی اور موٹرسائیکل پر سفر کرنے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے جسے ہم ایک خوش آئیند عمل کہہ سکتے ہیں۔ اکثر سڑکوں اور ٹریفک سگنلز پر اسکوٹی چلاتی لڑکیاں دکھائی دیتی ہیں جن میں سے اکثر تربیت یافتہ ہوتی ہیں۔ اے آر وائی کے پروگرام میں اس حوالے سے انٹرویو دینے والی خواتین کی بائیک انسٹرکٹر مرینہ سید کا کہنا ہے کہ “موٹر سائیکل چلانا سیکھنے کے لئے آنے والی خواتین میں 14,15 سال کی لڑکیوں سے لے کر 50 سال سے زائد عمر کی خواتین بھی شامل ہیں لیکن 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کو روڈ پر موٹر سائیکل چلانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ لڑکیوں کے بائیکل چلانے سے بہت حد تک ان کے ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہوئے ہیں“
سستی اسکوٹیز اور موٹر سائیکل کی ضرورت
دیکھا جائے تو لڑکیوں اور خواتین کا اسکوٹی اور موٹر سائیکل چلانا اپنے ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک بہتر قدم ہے لیکن اس سلسلے میں حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس رجحان سے منسلک تمام حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائے ساتھ ہی خواتین کے لئے سستی اور معیاری اسکوٹیز بھی متعارف کروائی جائیں اس کے علاوہ مجموعی طور پر پبلک بسوں کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ ہر شہری کی آمدورفت کا مسئلہ حل ہوسکے۔