نور مقدم کا سفاک قاتل عدالت میں رو پڑا
ڈسٹرکٹ اینڈ سین کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی۔اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کے تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی ہے تاہم ملزمان نے صحت جرم سے سے انکار کیا ہے۔نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے کہا کہ ان کے والد ذاکر جعفر نے نور مقدم سے جان چھڑانے کے لیے کہا تھا۔
ملزم ظاہر جعفر نے مزید کہا کہ جج صاحب میں نے یہ کیا تھا، پستول میرے باپ کا ہے۔قربانی اسلام میں بھی جائز ہے،نور مقدم نے خود کو قربانی کے لیے پیش کیا۔مجھے گھر میں قید کر دیں ، جیل میں مارتے ہیں۔پھانسی دے دیں جیل میں نہیں رہ سکتا یا معافی دے دیں۔ملزم نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عدالت سے معافی بھی مانگی۔ملزم نے کہا کہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے مرنا نہیں چاہتا، میری شادی ہونی چاہئیے بچے ہونے چاہئیے۔وکیل جو کچھ کہہ رہا ہے بے بنیاد ہیں۔
مجھے چھوڑ دیں۔ہم لڑے تھے میری غلطی تھی،وہ بھی غصے میں تھی۔ملزم نے نور مقدم کے والد شوکت مقدم سے کہا کہ میری زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے آپ مجھے بچا سکتے ہیں۔ملزم نے عدالت میں شوکت مقدم سے گفتگو کی اور کہا کہ آپ میری زندگی لینا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔نور مقدم کیس میں مقامی عدالت نے ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی۔مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت 12 ملزمان پر فرد جرم عائد کی۔مرکزی ملزم ظاہر جعفر،ذاکر جعفر،عصمت آدم،افتخار، جمیل،جان محمد پر فرد جرم عائد کی گئی۔