واقعہ کربلا، تاریخِِِ اسلام کا نہیں بلکہ تاریخ عالم کا افسوسناک واقعہ
سانحہ کربلا 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا، یزید کی بھیجی گئی افواج نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے اہل خانہ کو شہ-ید کیا۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ 72 ساتھی تھے، جن میں سے 18 اہل بیت کے اراکین تھے۔ اس کے علاوہ خاندانِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ واقعہ کربلا صرف تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ عالم کا
نادراور عجیب و غریب واقعہ ہے، دنیا میں یہی ایک واقعہ ایسا ہے، جس سے عالم کی تمام چیزیں متاثر ہوئیں۔ آسمان متاثر ہوا ، زمین متاثر ہوئی شمس و قمر متاثر ہوئے حتی کہ خود خداوندعالم متاثر ہوا اس کا تاثر شفق کی سرخی ہے، جو واقعہ کربلا کے بعد سے افق آسمانی پر ظاہر ہونے لگی ۔ یہ وہ غم انگیز اور الم آفرین واقعہ ہے جس نے جاندار اور بے جان کو خو-ن کے آنسو رلایا ہے اس واقعہ کا پس منظر رسول اور اولاد رسول کی دشمنی ہے ۔ بدر و احد ، خندق و خیبر میں ق-ت-ل ہونے والے کف-ار کی اولاد نے ظاہری طور پر اسلام قبول کرکے اپنے آباد واجداد کا بدلہ حضرت رسول کریم ﷺاور حضرت امیرالمومنینؐ کی اولاد سے بدلہ لینے کے جذبات اسلامی کاف-روں کے دلوں میں عہد رسول ہی سے کروٹیں لے رہے تھے لیکن عدم اقتدار کی وجہ سے کچھ بن نہ آتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد جب ۳۸ ہجری میں امیرالموٴمنین برسراقتدار آئے تو ان لوگوں کو مقابلہ کا موقع ملا جو عنان حکومت کودانتوں سے تھام کر جگہ پکڑچکے تھے، بالاخر وہ وقت آیا کہ یز ید ابن معاویہ خلیفہ بن گیا۔ حضرت علیؓ اور حضرت امام حسنؓ شہید کیے جاچکے تھے ۔ عہدِ یزید میں امام حسینؓ سے بدلہ لینے کا موقع تھا ۔ یزید نے خلافت منصوبہ پر قبضہ کرنے کے بعد امام حسین (ع) کو ما-رنے کا منصوبہ تیار کیا اور ایسے حالات پیدا کردئیے کہ حضرت امام حسینؓ کربلا میں آپہنچے یزید نے بروایت اسی ہزار فوج بھیجوا کر امام حسینؓ کو اٹھارہ بنی ہاشم اور بہتر اصحاب سمیت چند گھنٹوں میں مو-ت کے گھاٹ اتار دیا۔ حضرت امام حسینؓ 28 رجب 60 کو مدینہ سے روانہ ہوکر 10 محرم الحرام 61 ھ کو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے، ظا-لموں نے 7 محرم الحرام سے
پانی بند کردیا اور دسویں محرم کو نہایت بیدردی سے تمام لوگوں کو ما-رڈالا۔ کربلا کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا افسوسناک حادثہ تھا، اس واقعہ کی خبر اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کر دی تھی۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ایک شیشی میں کچھ مٹی دے کر فرمایا تھا کہ یہ اس جگہ کی مٹی ہے، جہاں میرے نواسے کو شہ-ید کیا جائے گا۔ جب وہ شہ-ید ہوگا تو یہ مٹی خو-ن کی طرح سرخ ہو جائے گی۔ کربلا کے واقعے کے وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اور جس وقت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے یہ مٹی خو-ن کی طرح سرخ اور مائع ہو گئی تھی۔ اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضورﷺ اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی، اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی ۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی ، حریت فکر، انسان دوستی ، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی ۔ لٰہذا جمہور مسلمان اس تبدیلی کواسلامی نظام شریعت پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے اس لیے امام حسین محض ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدان عمل میں اترے، راہ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدان کربلا میں گزری وہ جور جفا، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔ نواسہ رسول ﷺکو
میدان کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے شہ-ید کرکے ان کے جسم اورسر کی بے حرمتی کی گئی اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے۔ یہاں یہ نقطہ قابل غور ہے کہ جب شخصی اور ذاتی مصالح ، ملی ، اخلاقی اور مذہبی مصلحتوں پر حاوی ہو جاتے ہیں توانسان درندگی کی بدترین مثالیں بھی پیش کرنے پرقادر ہے اور ایسی مثالوں سے تو یورپ کی ساری تاریخ بھری پڑی ہے۔ سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب ہے، یزید کی نامزدگی اسلام کی نظام شورائیت کی نفی تھی، لہذا امام حسین ؓنے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت جرات اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی ، حریت فکر اور خداکی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی ۔ امام حسین کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لیے تاریخ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی