واٹس ایپ کا موجد “جین کوم”۔۔۔سڑک چھاپ سے ارب پتی تک کا سفر اور عزم و حوصلے کی داستان۔۔

قارئین آج کا کالم حصوصی طور پر ان لوگوں کے لئے ھے جو زندگی میں کسی بھی وجہ سے مایوسی کا شکار ہیں اور اللّه تعالئ کی ذات سے نا امید هو کر شکوے شکایتیں شروع کر دیتے ہیں۔جب اللّه کی ذات پر یقین اور نیک نیتی کے ساتھ درست سمت میں محنت ھو تو کبھی بھی زندگی کی بازی پلٹ سکتی ھے اور اللّه پاک کا کرم اور نوازشیں شروع هو سکتی ہیں۔آج کے کالم میں ھم عصرے حاضر کے سب سے جدید ذرائع “واٹس ایپ” اور اس کے کھرب پتی بانی “جین کوم” کا ذکر کریں گے۔کسی نے کیا حوب کہا ھے “دینے والا جب دینے پر آئے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ھے۔”


واٹس ایپ پہلے ہی دنیا بھرکے لوگوں کو انتہائی کم نرحوں میں بات چیت کا موقع دے رھا ہے.اس کے موجد “جین کوم”کو خود اپنے والد سےدوری اور فون پر بھی بات نہ کرپانے کا جو دکھ تھا، اس کے احساس کی وجہ سے اس نے دوسروں کوقریب لانے والی یہ ایجاد کی.جین کوم سن 1976 میں یوکرائن کے ایک غریب یہودی خاندان میں پیدا ہوا. گھر میں بجلی تھی نہ گیس. یہ لوگ سردیوں میں بھیڑوں کے ساتھ سونے پرمجبور ہو جاتے تھے. 1992ء میں یہودیوں پر حملے بھی شروع ہو گئے تو والدہ نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا لیکن والد نے وطن چھوڑنے سے انکار کر دیا۔


ماں نے بیٹے کا ہاتھ تھاما اور یہ دونوں امریکا آ گئے. کیلیفورنیا میں ان کے پاس مکان تھا نہ کچھ کھانے کو. امریکا میں حکومت انتہائی غریب لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کیلئے فوڈ سٹیمپس دیتی ہے. یہ سٹیمپس خیرات ہوتی ہیں. یہ لوگ اتنے غریب تھے کہ زندگی بچانے کے لیے خیرات لینے پر مجبور تھے۔جین کوم پڑھنے لگا. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی مہنگی ہونے لگی. فوڈ سٹیمپس سے گزارہ مشکل ہو گیا. جین کوم نے پارٹ ٹائم نوکری تلاش کی تو ایک گروسری اسٹور میں خاکروب کی ملازمت ملی. وہ برسوں یہ کام کرتا رہا.اتنی غربت میں والد سے فون پر بات بہت مشکل خواہش تھی.

وہ اٹھارہ سال کی عمر میں کمپیوٹر پروگرامنگ کے خبط میں مبتلا ہو گیا. یہ شوق اسے سین جوز اسٹیٹ یونیورسٹی لے گیا. 1997ء میں وہ ’’یاہو‘‘ میں بھرتی ہوا. 2004ء میں فیس بک آئی اور 2007ء میں دنیا کی بڑی کمپنی بن گئی. جین کوم نے فیس بک میں اپلائی کیا لیکن فیس بک کو اس میں کوئی پوٹینشل نظر نہ آیا. اور اسےنوکری نہ دی. وہ مزید دو سال ’’یاہو‘‘ میں رہا. اس دوران اس نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرکے آئی فون خرید لیا. اس آئی فون نے اس کے مستقبل کی تشکیل کی. جین کوم نے فون استعمال کرتے کرتے ایک دن سوچا کہ میں کوئی ایسی ایپلی کیشن کیوں نہ بناؤں جو فون کا متبادل بھی ہو، ایس ایم ایس بھی کیا جا سکے، تصاویر اور ڈاکو منٹس بھی بھجوائی جا سکیں اور جسے ’’ہیک‘‘ بھی نہ کیا جا سکے. یہ آئیڈیا اپنے ایک دوست برائن ایکٹون کے ساتھ شیئر کیا.

یہ دونوں اسی آئیڈیا پر کام میں جت گئے. یہاں تک کہ دو سال میں ایک طلسماتی ایپلی کیشن بنانے میں کامیاب ہو گئے. یہ ’’ایپ‘‘ فروری 2009ء میں لانچ ہوئی اور اس نے پوری دنیا کو جوڑ دیا۔ یہ ایپلی کیشن” واٹس ایپ” کہلاتی ہے. دنیا کے ایک ارب لوگ اس وقت یہ ایپ استعمال کر رہے ہیں. آپ واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو نیا فون اور نیا نمبر خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور آپ پوری دنیا کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔ جین کوم کو واٹس ایپ نےچند ماہ میں ارب پتی بنادیا. یہ ایپلی کیشن اس قدر کامیاب ہوئی کہ دنیا بھر کی کمپنیوں نے اس کی خریداری کیلئے بولی دینا شروع کر دی لیکن یہ انکار کرتا رہا۔

فروری 2014ء میں فیس بک بھی ’’واٹس ایپ‘‘ کی خریداری کی دوڑ میں شامل ہو گئی. فیس بک کی انتظامیہ نے جب اس سے رابطہ کیا تو اس کی ہنسی نکل گئی. اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور قہقہہ لگا کر کہا ’’یہ وہ ادارہ تھا جس نے مجھے 2007ء میں نوکری دینے سے انکار کر دیا تھا‘‘ ہنستے ہنستے اس نے ’’فیس بک‘‘ کو ہاں کر دی. 19 ارب ڈالر میں سودا ہو گیا. یہ کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پاکستان کا کل زر مبادلہ 20 ارب ڈالر کے آس پاس رہتا ہے.


جین کوم نے فیس بک کے ساتھ سودے میں صرف ایک شرط رکھی کہ میں فوڈ سٹیمپس دینے والے ادارے کے ویٹنگ روم میں بیٹھ کر معاہدے پر دستخط کروں گا. فیس بک کے لیے یہ شرط عجیب تھی. یہ لوگ معاہدہ اپنے دفتر یا اس کے آفس میں کرنا چاہتے تھے. لیکن فیس بک کو اس کی ضد ماننا پڑی. تاریخ طے ہوئی، فیس بک والے فلاحی سینٹر پہنچے. وہ ویٹنگ روم کے آخری کونے کی آخری کرسی پر بیٹھا ہوا رو رہا تھا. وہ کیوں نہ روتا، یہ وہ سینٹر تھا جس کے اس کونے کی اس آخری کرسی پر بیٹھ کر وہ اور اس کی ماں گھنٹوں ’’فوڈ سٹیمپس‘‘ کا انتظار کرتے تھے۔

یہ دونوں کئی بار بھوکے پیٹ یہاں آئے اور شام تک بھوکے پیاسے یہاں بیٹھے رہے. ویٹنگ روم میں بیٹھنا اذیت ناک تھا لیکن اس سے بڑی اذیت کھڑکی میں بیٹھی خاتون تھی. وہ خاتون ہر بار نفرت سے ان کی طرف دیکھتی تھی، طنزیہ مسکراتی تھی اور پوچھتی تھی’’تم لوگ کب تک خیرات لیتے رہو گے، تم کام کیوں نہیں کرتے؟ ‘‘ یہ بات سیدھی ان کے دل میں ترازو ہو جاتی تھی لیکن یہ لوگ خاموش کھڑے رہتے تھے۔


خاتون انھیں ’’سلپ‘‘ دیتی تھی، ماں کاغذ پر دستخط کرتی تھی اور یہ لوگ آنکھیں پونچھتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے. وہ برسوں اس عمل سے گزرتا رہا، چنانچہ جب کامیابی ملی تو اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی اسی ویٹنگ روم میں منانے کا فیصلہ کیا. اس نے 19 ارب ڈالر کی ڈیل پر ’’فوڈ سٹیمپس‘‘ کے انتظار میں بیٹھے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر دستخط کئے. چیک لیا اور سیدھا کاؤنٹر پر چلا گیا.

فوڈ سٹیمپس دینے والی خاتون آج بھی وہاں موجود تھی. جین نے 19ارب ڈالر کا چیک اس کے سامنے لہرایا اور ہنس کر کہا’’آئی گاٹ اے جاب‘‘اور سینٹر سے باہر نکل گیا۔ یہ ایک مفلس غریب الوطن کے عزم و ہمت کی انوکھی داستان ہے جو ثابت کرتی ہے کہ آپ ڈٹے رہیں، محنت کرتے رہیں تو بالآخر کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے.
ایک سبق یہ بھی ہے کہ اللّه کی ذات پر اندھا یقین، مسلسل محنت اور حلق حدا کیلئے آسانیاں پیدا کرنے والے کو ضرور صلہ ملتا ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں