کاش میرا یہ خط کوئی جنت کی ڈاک میں رکھ آئے، اے پی ایس کے شہید احمد کے نام اس کی کزن کا خط
16 دسمبر 2014 کا دن پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جس دن پاکستانیوں نے حجم کے اعتبار سے چھوٹے مگر وزن کے اعتبار سے بہت بھاری جنازے اٹھائے اور ان جنازوں کو قبروں میں تو اتار دیا مگر ان کے بوجھ کو آج تک اپنے کاندھوں سے نہیں اتار پائے۔ آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کے سبب جن بچوں کی شہادت ہوئی ان کی یاد صرف ان کے والدین کے دلوں ہی میں نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ماؤں کے دلوں میں زندہ ہے یہ وہ سیاہ دن تھا جب بچے ماؤں سے جدا ہوئے بھائی بہنوں سے جدا ہوئے اور دوست دوست کے بنا ادھورا رہ گیا- |
ایسا ہی ایک نوجوان احمد بھی تھا جو جماعت نہم کا ہونہار طالب علم تھا اور اس سال اس کی کزن نے اپنے اس بھائی کی یاد میں ایک خط لکھا- سوشل میڈيا سے سامنے آنے والے اس خط نے سب کو اشکبار کر دیا یہ خط ایک احمد کے نام نہ تھا بلکہ یہ ان تمام شہید بچوں کے نام تھا جو بستے لے کر اسکول گئے تو تھے مگر جن کی واپسی خون آلود یونیفارم میں لوگوں کی گودوں میں ہوئی تھی- |
خط میں احمد کی کزن سمی ان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتی ہیں |
ایک خط احمد کے نام |
کیسے ہو احمد ؟ جنت میں سب کیسے ہیں ؟ دنیا تو ویسی ہی ہے ، جیسے تم چھوڑ کر گئے تھے ، بس شائد ہمارے ویسے نہیں رہے ۔ کتنا وقت ہو گیا ہے نا ، تمھیں گئے ہوئے ۔ تم ہمیں اسی طرح یاد آتے ہو،اور مسلسل آتے ہو۔ |
تمھیں پتا ہے ، جس دن تم شہید ہوئے تھے ، اس دن صبح پھپھو اپنے کولیگس کو تمھاری تصویر دکھاتے ہوئے کہہ کر آئی تھیں کہ دیکھو میرا شہزادہ کتنا بڑا ہو گیا ہے ، میں سوچتی ہوں جب تمھاری شہادت کی خبر ملی ہو گی تو ان کے دل پر کیا گزری ہو گی یہ صرف وہ جانتی ہیں یا ان کا دل لیکن احمد تمھارے والدین اور بہن بھائی بہت صبر والے ہیں۔ میں نے کبھی پھپھو کو روتے ہوئے نہیں دیکھا ہے بس ان کی آنکھیں لال دیکھی ہیں پتہ ہے اگست میں تمھاری بہن کی شادی ہے ۔اسے تم کتنا یاد آتے ہو گے تمھارے بابا بھی اب پہلے جیسے نہیں رہے بہت کمزور ہو گئے ہیں ۔ظاہر ہے جوان بیٹا کھونا کوئی چھوٹا غم تھوڑی ہوتا ہے- |
احمد یاد ہے ،ہم بچپن میں کرکٹ کھیلتے تھے ،تو تم ہمیشہ جیت جاتے تھے ، تم تو آئے ہی جیتنے کے لیے تھے ، تم کتنے الگ تھے احمد ، بہت خاص تھے اور ہم بہت عام ،کیسے تم رات کو پھپھو کو اٹھا کر کہتے تھے کہ ‘مجھ سے راضی ہیں؟ ‘ کیسے تم اس عمر میں بھی نمازوں کی پابندی کرتے تھے ، کیسے تم مسجد میں نماز پڑھتے تھے ،کیسے تم اذان دیا کرتے تھے ،تم کہتے تھے نا کہ ‘میں بورڈ میں ٹاپ کروں گا اور میری تصویر اسکول میں لگے گی “- |
احمد تم سچے تھے ، اور تمھاری یہ بات سچ ہوئی تمھاری تصویر لگی تھی پر تمھارا نام ٹاپرز میں نہیں تھا شہدا میں تھا- |
جانتے ہو احمد ، جب میں اسکول سے آئی تھی تو تمھاری شہادت کی خبر ملی تھی اس دن ، تمھارا خون رک ہی نہیں رہا تھا میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتی ، چاہوں بھی تو کبھی نہیں ۔ میرے پاس کہنے کو بہت سی باتیں ہیں مگر اب الفاظ ساتھ نہیں دے رہے ہیں- اتنا کہنا ہے کہ تم بہت یاد آتے ہو کوئی فرشتہ میرا یہ خط جنت کی ڈاک میں رکھ آئے- |
جنت میں ملاقات ہو گی |
Load/Hide Comments