کوئی پیار میں دھوکہ دے تو ایک بات یاد رکھنا؟
کبھی کبھی میرا خود سے ملنے کو جی کرتا ہے کافی کچھ سنا ہے میں نے خود کے بارے میں ۔ اگر تم کسی کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہو تو یہ مت سمجھنا وہ کتنا بے وقوف ہے بلکہ یہ سوچنا کہ اس کا تم پر اعتبار کتنا تھا۔ دھوکہ کھانے والوں کو وقت کے ساتھ ساتھ سکون مل جاتا ہے پر دھوکہ دینے والے کو کبھی سکون نہیں ملتا۔
آنکھوں سے شروع ہو کر کہانی الفت تک جاپہنچی ہے جب کو ہوش آیا تو بات محبت تک جا پہنچی تھی۔رشتے کمزور ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم رشتوں کو نبھاتے کم اور آزماتے زیادہ ہیں۔انسان اپنے اوصاف سے ہی عظیم بنتا ہے اونچا عہدہ حاصل کرنے سے نہیں کیونکہ اونچے مینار پر بیٹھنے سے کوا عقاب نہیں بن جاتا۔
انسان اکڑ کر ایک ٹیلے پر نہیں چڑھ سکتا لیکن جھک کر کوہ ہمالیہ پر پہنچ سکتا ہے۔عاجزی سے جھکنا سیکھیں تا کہ بلندی نصیب ہو۔رشتے اور موسم دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں کبھی حد سے زیادہ اچھے اور کبھی برداشت سے باہر فرق بس اتنا ہے کہ موسم جسم کو تکلیف دیتا ہے اور رشتے روح کو۔اقوال کبھی نکوٹین کا متبادل سمجھے جاتے تھے کیونکہ انہیں سنانے والے کو لگتا تھا کہ چند لفظوں کا جادو سوئے ضمیر جگانے میں مدد گار ہوتا ہے۔
جاگنے کا علم نہیں ہاں آنکھیں کھولنے کے لیے چائے کافی سگریٹ، پان، گٹکا اور تلخ تجربہ، یہی کافی ہوتے ہیں۔پہلے درسی کتب کے آخر میں اقوال زریں اس لیے چھاپ دیے جاتے تھے تاکہ خالی صفحہ پُر ہو سکے۔ اس مقصد کے لیے ناشر کے یہاں موجود سب سے عقل مند جسے گردانا جاتا تھا اسے دس اقوال زریں جمع کرنے کا کہا جاتا تھا۔ اب ان دس اقوال میں کتنے حکیم لقمان کہہ گئے اور کتنے ایرانی ہوٹل پر روز ملنے والے بڑ بولے صحافی کے ہیں یہ ناشر کے اسی عقل مند کارندے کی صوابدید ہے۔
ان دس اقوال سے پتا چلتا تھا کہ قائد اعظم بچوں کے لیے کتنا کچھ کہہ گئے، لیاقت علی خان کے گولی لگنے کے بعد آخری الفاظ پوری فلسفہ حیات تھے، سادہ غذا حکیم سعید کے مطابق کامیابی کی کنجی ہے، صفائی ستھرائی پر شیخ سعدی بہت زور دیتے تھے اور نیپولین بونا پارٹ تو ادھار لے کر بھول جانے والوں سے بھی واقف تھے۔اقوال زریں کی یہ افیون بچوں کو میٹرک، انٹر اور یونیورسٹی تک دی جاتی ہے جس کا اثر دیر تک رہتا ہے۔
جیسے ہی وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں کئی برسوں گھول کر پلایا گیا سارا نشہ ہرن ہونے میں گھنٹے نہیں لگتے۔ہمارے ساتھ تازہ واردات یہ ہوئی کہ دانائی اور حکمت کے چند نئے ہیرے اس دور میں دریافت ہوگئے۔ اس لیے اقوال زریں کے خزانے میں اب تو روز نئے قول کا اضافہ ہوتا رہتا ہے جیسے کہ یہ قول ’فائلوں کو پہیے لگانے پڑتے ہیں۔‘ یہ ہیرے اپنے اقوال میں مہنگائی سے لے کر خلائی سٹیشن تک سب کا احاطہ کیے لیتے ہیں۔
سنہری اقوال اور حکایتوں کی اس چکا چوند میں سچی کھری اور عملی باتیں بہت بےرنگ لگتی ہیں لیکن تحریر سمیٹتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم چاہیں بھی تو زندگی اقوال زریں کے حساب سے چلتی نہیں۔ظلم و انصاف پر ہزاروں کے حساب سے اقوال مل جائیں گے لیکن یہ چمکتے مہکتے الفاظ اس بچے کی آنکھوں میں ٹھہرے اس منظر کا اثر زائل نہیں کرسکتے جب اس کے سامنے اس کے باپ کو کوئی ناحق گولیوں سے بھون گیا۔
ماضی کے گیانی لوگوں کے اکثر قول اس دور میں سمجھنا مشکل ہوگیا ہے۔منیر نیازی کہہ گئے۔خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے،ان میں جاکر مگر رہا نہ کرو۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر