ہر عروج کو زوال ہے ۔۔۔
ایران کا سابق شہنشاہ ‘‘رضا شاہ پہلوی’’ جو کہ 22سال کی عمر میں ایران کابادشاہ بن گیا ابھی اس کی عمر ٖصرف 6 سال کی تھی کہ اس کو ولی عہد قرار دے دیا گیاتھا، وہ 38سال تک ایرا ن کا حکمران تھا۔ وہ مزاجاً سوشلسٹ اورمغرب پرست حکمران تھا،
اس نے ایران میں عصر کی نماز کی ادائیگی پر پابندی لگادی تھی،وہ اپنی سلطنت کو تین ہزار سال پرانی سلطنت قرار دیتا تھا۔ اس نے یہودیوں کو اسرائیل کے قیام میں مدد دی تھی، وہ اسرائیل کے لیے روز گار کے مواقع بھی تلاش کرتاتھا۔ 1948میں اس نے
ایران سے اسرائیلوں کو اسرائیل میں جا کر بسنے کی قانونی اجازت دے دی تھی۔ اس مقصد کے لیے اسرئیل کی’’ موساد ‘‘کو تہران میں آفس کھولنے کی بھی
اجازت دی تاکہ یہودیوں کی آبادی کو پر امن طریقے سے اسرئیل ٹرانسفر کیا جا سکے۔ اسی طرح ایران کے وزیراعظم’’ محمد اسد‘‘ نے اسرائیل کو ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کرنے کے لیے 50, 000ڈالر کی رقم وصول کی تھی،یہ وہ وجوہات تھی جن کی وجہ
سے ایران میں حکومت کا مذہبی حلقوں اور عربوں میں اختلاف پیدا ہوگیا،شہنشاہ ایران ’’رضاشاہ پہلوی‘‘ کو سرطان کی جان لیوا بیماری لگ گئی، اسی بیماری کے دوران ہی اس کو ایران چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ امریکہ نے ’’شہنشاہ ایران‘‘ کو ایک مختصر عرصہ سے زیادہ دیر تک پناہ دینے سے انکار کر دیا۔
مصر اور مراکش نے پہلے ہی پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ میکسیکونے اگر چہ پناہ دے دی لیکن اس میں پروٹوکول نہیں تھا بلکہ عام سیاسی پناہ تھی،کچھ عرصہ تک وہ ’’بہاماز‘‘ میں بھی مقیم رہا،شہنشاہ کے پاس دولت تو بے بہا تھی لیکن سکون نہیں تھا۔ اس نے لوٹی ہوئی دولت واپس کرکے ایران میں آنے کی درخواست کی لیکن انقلابی حکومت نے انکار کر دیا ،اس
دوران شہنشاہ نے مصر کے’’ صدر انور سادات‘‘ کو خط لکھا جس میں اس نے کہا کہ’’میں دنیا کا سب سے بڑا بھکاری ہوں خدا کے واسطے مجھے مصر میں آنے دو اور میری پہلی بیوی ’’نریمان‘‘ کے پہلو میں دفن ہونے دو‘‘اس خط کو پڑ ھ کر’’صدر انور سادات‘‘ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے یہ درخواست قبول کر لی۔ مصری عوام اس کے خلاف تھے۔ انہوں نے احتجاج شروع کر دئیے لیکن مصری صدر نے اس کا حل یہ نکالا کہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی’’ رضا شاہ پہلوی ‘‘کے
بڑے بیٹے سے کر دی پھر ’’سمدھی ‘‘ہونے کے ناطے اس کو ’’شہنشاہ ایران ‘‘کے مصر میں آنے کا جواز مل گیا۔ قاہرہ آتے ہی شہنشاہ ایران کے کینسر میں مزید شدت آگئی ، چند دن بعد اس نے ’’صدر انور سادات‘‘ سے ملاقات کی درخواست کر دی جب ’’صدرانورسادات‘‘ اس سے ملنے آئے تو اس نے کہا ’’جناب صدر‘‘ آپ کے خیال میں میری آخری خواہش کیا ہو سکتی ہے؟ اس پرصدر انور سادات نے جواب دیا کہ
تم شہنشاہ رہے ہو۔ ہو سکتا ہے تم دوبارہ باد شاہت کے خواہش مند ہو گئے اس پر ’’رضاشاہ پہلوی ‘‘نے انکار میں سر ہلا دیا ،پھر کہا ہو سکتاہے کہ تمہیں بہت ساری دولت کی ضرورت ہو تاکہ تم اپنا آخر وقت آرام سے گزارسکو ،لیکن’’ رضاشاہ پہلوی‘‘ نے اس پر بھی انکار میں سر ہلا دیا،تیسری مرتبہ ’’صدر انور سادات ‘‘نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ تم صحت اور آرام کے خواہش مند ہو گے؟ لیکن اس
مرتبہ بھی رضاشاہ پہلوی نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ’’میر ی آخر ی خواہش یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی نے میری زندگی میں مہلت دینی ہے تو اتنی مہلت ضرور دے کہ میں سکون سے مر سکوں،شاید یہ قبولیت کی گھڑی تھی، ٹھیک تین دن بعد شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس کی موت کے بعد جب ’’صدر انورسادات ‘‘سے اس کی موت کے بارے میں دریافت کیا گیا،
تو اس نے کہا کہ ’’رضا شاہ پہلوی اگر چہ سرزمین فرزندمصر نہیں تھا لیکن وہ مصریوں کا داماد اور میرا’’ سمدھی‘‘ ضرورتھا اس لیے اسے سر زمین مصر میں دفن ہونے کا حق حاصل ہے‘‘۔ملکو ں کو حکمرانوں کا اچھاکریکٹر عزت دیتا ہے ،جو حکمران بد قماش اور بدکردار ہوں وہ کبھی اپنے عوام کے دلوں میں جگہ نہیں پاتے۔