ہر پیشن گوئی سچ ثابت۔۔۔۔
قارئین پاکستان کے سینئر صحافی اور نامور کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔یہ کوئی دو چار برس کی کہانی نہیں پورے 30برس کا قصہ ہے۔ ہر ہفتے میں ایک دو بار ٹکا محمد اقبال خان کے گھر محفل ہوتی، مرحوم راؤ سکندر اقبال،
چودھری نوریز شکور، دو تین بیوروکریٹ، ہم دو صحافی، میں اور انجم رشید، محفل میں دنیا جہاں کی باتیں ہوتیں، ملکی سیاست سے لے کر بین الاقوامی سیاست کے اتار چڑھائو تک سب زیر بحث آتا۔ ٹکا اقبال میرِ محفل ہوتے، مگرہر ایک کو اپنی رائے کے اظہار
کی مکمل آزادی تھی، مباحث ہوتے، دلائل دیے جاتے، تازہ ترین خبریں اور انکشافات کی بات ہوتی، پرانے مقولے، تاریخی داستانیں دہرائی جاتیں، رات گئے کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ کر محفل شاندار دعوت کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی۔اقبال ٹکا کو سیاست سے عشق تھا،
ان کا اٹھنا، بیٹھا اور چلنا سب کچھ حکمت اور دانائی سے بھرپور ہوتا تھا، حسنِ فراست اور حسنِ انتظام ان کی زندگی کا خاصہ تھا، ان کی گفتگو تجربات سے بھرپور اور مشاہدات سے مالا مال ہوتی۔ احراری لیڈروں کی خطابت سے لے کر نواب آف کالا باغ
کی ایڈمنسٹریشن تک ان کے پاس داستانوں کا ذخیرہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تو وہ صوبائی مشیر رہے اس لئے بھٹو سے ملاقاتوں کی لاتعداد کہانیاں سنانے کیلئے تیار رہتے۔ کھر اور رامے تو ان کے ہم عصر تھے، ان کے ساتھ سیاسی دائو پیچ کے تو وہ خود اہم کردار
تھے۔ اتفاق یہ ہوا کہ ان کی جنرل ضیاء الحق سے بھی کافی میل ملاقات رہی۔ جتوئی اور نواز شریف کی سیاست کے وہ ہم رکاب رہے۔ جنرل مشرف سے ان کی ذاتی دوستی رہی۔ اس قدر متنوع تعلقات اور اہلِ اقتدار و سیاست سے اس قدر طویل تعلق کی
وجہ سے تجربے کی بھٹی سے گزر کر خود سونا ہو چکے تھے۔اسٹیبلشمنٹ کیا ہے؟ سول اور ملٹری تعلقات کیسے ہوتے ہیں؟ اقبال ٹکا پاکستانی سیاست کے اس راز کے سب سے
بڑے شارح تھے، انہیں اسٹیبلشمنٹ کی سوچ اور اس کے طریق کار کی مکمل آگہی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی متوقع چالوں کی بالکل صحیح نشاندہی کر پاتے تھے۔ جرنیلوں کی تاریخ پیدائش سے لیکر مدت ملازمت تک ان کے حافظے میں
محفوظ ہوتی کون کس کا رشتہ دار ہے اور کون کس سے جڑا ہوا ہے یہ ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔ٹکا صاحب عارفوالہ کے ایک عام ٹاٹ اسکول کے پڑھے ہوئے تھے مگر ان میں اس بلا کا اعتماد تھا کہ ملک کے ٹاپ جرنیلوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ وہ مثالوں،
تاریخی واقعات اور دلائل سے مرصع ایسی گفتگو کرتے کہ سب پر چھا جاتے ۔اقبال ٹکا بہترین لباس پہنتے نہ صرف خود خوش پوش تھے بلکہ اپنے ملاقاتیوں کو بھی لباس اور تراش خراش پر مشورے دیتے ۔ اندازہ یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی سوٹ ہوں یا جنرل پرویز مشرف کے شلوار قمیص، ان میں سے زیادہ تر اقبال ٹکا ہی کا تحفہ ہوتے وہی اپنے خاص ٹیلر سے سلوا کر انہیں بھجواتے رہے ۔ان کے آئیڈیل تو ان کے والد ٹکا محمد خان تھے ہر واقعہ میں ان کی بصیرت اور قوت فیصلہ کا حوالہ ہوتا اپنی بات کا آغاز یوں
کرتے ’’قصہ یہ ہے ‘‘ اور پھر گویا ہوتے کہ نواب آف کالا باغ گورنر بنے تو انہیں پتہ چلا کہ بیوروکریسی نہ وقت کی پابندی کرتی ہے نہ کسی کی سنتی ہے ۔نواب آف کالا باغ نے صدر ایوب سے بات کی اور ان سے گرین سگنل لے لیا اگلی صبح پورے آٹھ بجے سیکرٹریٹ جاکر بیٹھ گئے کیا سیکرٹری اور کیا چیف سیکرٹری کوئی بھی وقت پرنہیں پہنچا ۔کوئی ساڑھے نو بجے چیف سیکرٹری پنجاب پائپ
پیتے ہوئے سیکرٹریٹ پہنچے تو گورنر صاحب نے ان سے تاخیر سے آنے کی وجہ پوچھی اور پھر اسی شام چیف سیکرٹری کا ٹرانسفر ہوگیا ۔یوں ساری بیوروکریسی کو نہ صرف پابندی وقت کا پیغام مل گیا بلکہ ساری بیوروکریسی گورنر کے احکامات پر بھی پوری تندہی سے عمل کرنے لگی ۔عزت کیسے کرتے ہیں چھوٹے بڑے کو عزت کیسے دیتے ہیں یہ اقبال ٹکا سے سیکھنے کی بات تھی کوئی چھوٹا ہوتا یا
بڑا اس سے کھڑے ہو کر ملتے اسے رانا صاحب، چودھری صاحب یا میاں صاحب کہہ کر بلاتے، ان کا دسترخوان بہت ہی وسیع تھا تکلف اس قدر کرتے تھے کہ شاہی دسترخوان کا گمان ہوتا دنیا جہاں کے کھانوں کے انبار لگ جاتے او رٹکا صاحب ایک ایک کھانے کا نام لے
کر مہمانوں کو بہ اصرار وہ کھلاتے۔ٹکا صاحب کے چھوٹے سے حلقہ یاراں کی جو میٹنگز ڈرائنگ روم میں ہوتیں ان میں سے کئی بڑی تاریخ ساز ہوتیں۔پرویز مشرف ان کے دوست بن گئے تھے اس لئے جب انہوں نے ایم ایم اے سے معاہدے کے تحت وردی اتارنے کا فیصلہ کیا
تو جنرل پرویز مشرف کو ٹکا صاحب نے قائل کرلیا کہ اگر آپ نے وردی اتار دی تو آپ کا کنٹرول ختم ہو جائے گا۔اقبال ٹکا کا ایک اور شعبہ اختصاص، حکمرانوں سے خط وکتابت تھا، وہ عام طور پر اس خط وکتابت کو خفیہ رکھتے۔ مجھے البتہ ان کے بھٹو صاحب، جنرل
ضیاء الحق ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کو لکھے گئےکچھ خطوط پڑھنے کا موقع ملا۔صاف شفاف اور پرنٹڈ خوبصورت مونوگرام کےساتھ فولڈر میں بند ہر خط میں کوئی نہ کوئی صائب اور مفید مشورہ دیاجاتا ۔بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کو لکھے گئے کئی خطوط پر باقاعدہ عملدرآمد ہوا اور اس کے تاریخی ثبوت موجود ہیں ۔ٹکا صاحب، صوبائی مشیر اور صوبائی
وزیر رہے تقدیر موقع دیتی تو شاید ان کی خواہش گورنر پنجاب یا وفاقی وزیر داخلہ بننے کی بھی تھی۔ایک بار جنرل مشرف کے زمانے میں ان کا گورنر پنجاب کے طور پر انتخاب ہوتے ہوتے رہ گیا ان کے ایک مخالف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وہ واقعی گورنر میٹریل ہیں چاہے انہیں اس کا چانس ملے یا نہ ملے‘‘۔وہ سیاسی طور پر آزاد فکر تھے لیکن بھٹو اور ان کے خاندان سے محبت کو ان کے دل سے
نکالنا مشکل تھا۔ بے نظیر بھٹو کے دل وجان سے ساتھی رہے فاروق لغاری ان کے بہت پرانے دوست تھے لیکن جب صدر لغاری کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے مخاصمت ہوئی تو وہ واضح طور پر محترمہ کے ساتھ کھڑے رہے اور فاروق لغاری کو مل کر سمجھایا کہ تم تاریخی طور پر غلط کردار ادا کر رہے ہو۔نواز شریف کے دور میں وہ قید میں رہے قید کے دنوں میں ہی انہوں نے کہا تھا کہ
نواز شریف کو الٹی ہتھکڑی لگے گی اور ان کا گھر یتیم خانہ بنے گا ۔ٹکا صاحب نے اپنے دوست جنرل مشرف کے دور میں ہمیں یہ دونوں کام دکھا دیے یہ ان کا کرشمہ تھا یا تقدیر کا الٹ پھیر۔مگر ان کی بات سچ ہو کر رہی اقبال ٹکا آج ہم میں نہیں رہے مگر جیسے ان کا سکہ ان کی زندگی میں قائم تھا ان کی باتوں کی حلاوت کا سکہ کم از کم ہماری پوری زندگی میں قائم و دائم رہے گا۔