یہ قیمتی چیز میری بیٹی کو دینا ۔۔ پھانسی سے قبل ذولفقار علی بھٹو نے بے نظیر کو اپنی آخری نشانی میں کیا دیا تھا؟
مرنے سے ہر کسی کو ڈر تو ضرور لگتا ہے اور پھر جس کے نصیب میں پھانسی ہو اس کی کیفیت تو وہی انسان جانتا ہے یا پھر اللہ پاک۔
اب بات کرتے ہیں ذولفقار علی بھٹو کی یہ وہ نام ہے جسے آج سے کئی سال پہلے پھانسی تو د ے دی گئی مگر یہ آج بھی پیپلز پارٹی کے جیالوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
آج ہم بات کرنے جا رہے ہیں بھٹو صاحب کی زندگی کے آخری چند لمحات کی جب انہیں پھانسی کیلئے لے جایا جا رہا تھا تو انکی کیا کیفیت تھی اور انہیں کس طرح پھانسی دی گئی۔
بی بی سی کے مطابق 4 اپریل 1979 کو بھٹو کو رات 2 بجے راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی لیکن اس سے پہلے جب ان کی رحم کی اپیل سپریم کورٹ سے خارج کر دی گئی تو ان سے شیو بنانے والا ریز لے لیا گیا کہ کہیں وہ خود کشی نہ کر لیں۔
مزید یہ کہ پھانسی کے لیے تختہ دار پر جانے سے کچھ دیر پہلے انہوں نے داڑھی بنانے کی اجازت مانگی اور نو بج کر 55 منٹ پر انہوں نے اپنے دانتوں میں برش کیا، چہرہ دھویا، بال بنائے۔
اس کے بعد وہ سونے چلے گئے اور پھر رات ڈیڑھ بجے انہیں پھر سے اٹھایا گیا ، وہ ہلکے بادامی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے، جیل میں تعینات اہلکاروں نے کپڑے تبدیل کرنے پر زور نہیں دیا۔
جب سیکورٹی اہلکاروں نے ان کے ہاتھ پیچھے باندھنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس کی مخالفت کی۔ آخر کار انہوں نے زبردستی ان کے ہاتھ رسی سے باندھ دیے۔ اس کے بعد انہیں ایک سٹیچر پر لٹا کر تقریباً 40 گز کی دوری تک لے جایا گیا۔
اس کے بعد بھٹو سٹیچر سے خود اتر گئے اور پھانسی کے پھندے تک خود چل کرگئے۔ جلاد نے ان کا چہرہ کالے کپڑے سے ڈھانپ دیا۔
ان کے پیر باندھ دیے گئے۔ جیسے ہی دو بج کر چار منٹ پر مجسٹریٹ بشیر احمد خان نے اشارہ کیا، جلاد تارا مسیح نے لیور کھینچا۔ بھٹو کے آخری الفاظ تھے فنش اٹ۔35 منٹ بعد بھٹو کے مردہ جسم کو ایک سٹریچر پر رکھ دیا گیا۔
ذولفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر اور بیوی سے آخری باتیں :
بے نظیر بھٹو 2 اپریل 1979 کی صبح اپنے بستر میں لیٹی ہوئی تھیں تبھی اچانک ان کی والدہ نصرت بھٹو کمرے میں یہ کہتے ہوئے داخل ہوئیں پنکی، گھر کے باہر جو فوجی ہیں وہ کہہ رہے ہیں ہم دونوں کو آج ہی تمہارے والد سے ملاقات کرنے جانا پڑے گا، اس کا مطلب کیا ہے؟
بے نظیر اپنی سوانح عمری “ڈاٹر آف دا ایسٹ” میں لکھتی ہیں ’مجھے معلوم تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ میری والدہ کو بھی معلوم تھا۔ لیکن ہم دونوں اس کو قبول نہیں کرپا رہے تھے۔نصرت اور بے نظیر بھٹو کو ایک شیورلیٹ کار میں راولپنڈی جیل لایا گیا۔ تلاشی کے بعد انہیں بھٹو کے سامنے لے جایا گیا۔ ان کے درمیان پانچ فٹ کی دوری رکھی گئی۔
انہوں نے مجھے ان کے وکیل کے دیے ہوئے کچھ سگار بھی واپس کیے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ شام کے لیے میں نے ایک سگار بچا کر رکھا ہے۔ انہوں نے شالمیار کولون کی ایک شیشی بھی اپنے پاس رکھی تھی۔
وہ مجھے اپنی شادی کی انگوٹھی دے رہے تھے، لیکن میری والدہ نے انہیں روک دیا۔ اس پر انہوں نے کہا ابھی تو میں اسے پہن لیتا ہوں لیکن بعد میں اسے بےنظیر کو دے دیا جائے۔تھوڑی دیر بعد جیلر نے آ کر کہا کہ ملاقات کا وقت ختم ہوگیا ہے۔
بے نظیر نے کہا کہ کوٹھری کو کھولیے میں اپنے والد کو گلے لگانا چاہتی ہوں لیکن جیلر نے اس کی اجازت نہیں دی۔ بےنظیر مزید لکھتی ہیں میں نے کہا، پلیز میرے والد پاکستان کے منتخب وزیر اعظم ہیں اور میں ان کی بیٹی ہوں۔ یہ میری آخری ملاقات ہے اور مجھے ان کو گلے لگانے کا حق ہے۔ لیکن جیلر نے صاف انکار کردیا۔
میں نے کہا گڈ بائے پاپا۔ میری والدہ نے سلاخوں کے درمیان ہاتھ بڑھا کر میرے والد کے ہاتھ کو چھوا۔ ہم دونوں تیزی سے باہر کی جانب نکلے۔ میں پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہتی تھی لیکن میری ہمت جواب دے گئی۔