42 سال پہلے جب خانہ کعبہ کے اندر جعلی امام مہدی کا ظہور ہوا ۔۔۔
آج سے ٹھیک 42 برس قبل، یعنی 20 نومبر 1979 کو 200سے زائد شدت پسندوں نے نئے اسلامی سال کے آغاز پر خانہ کعبہ پر حملہ کر کے ایک لاکھ عبادت گزاروں کو مسجد میں محصور کر دیا تھا۔یہ ایک ایسا ناقابل تصور واقعہ تھا جس نے آگے چل کر سعودی معاشرے کی شکل بلکل تبدیل کر دی تھی۔ 1979
کو ویسے تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے لیکن سعودی عرب میں یہ سال مکہ میں خانہ کعبہ پر کیے جانے والے حملے اور دو ہفتوں پر محیط محاصرے کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے جس میں ہزاروں افراد ہلاک اور تقریباً ایک لاکھ لوگ مسجد الحرام میں محصور ہو گئے تھے۔ 41 برس قبل چار دسمبر کو سعودی حکومت نے فرانسیسی کمانڈوز، پاکستانی اور سعودی فوج کی مدد سے لڑائی کا خاتمہ کیا جس کا آغاز 20 نومبر کو ہوا تھا
جب 400 سے 500 شدت پسندوں نے یکم محرم 1400 ہجری کو نئے اسلامی سال کے آغاز پر خانہ کعبہ پر حملہ کر کے ایک لاکھ عبادت گزاروں کو مسجد میں محصور کر کے خود انتظام سنبھال لیا تھا۔ حملہ آوروں کی قیادت کرنے والے جہيمان بن محمد بن سيف العتيبی کا تعلق نجد کے ایک بدو قبیلے سے تھا، اور وہ سعودی عرب کے معروف عالم دین عبدالعزیز بن باز کی تعلیمات سے نہایت متاثر تھا۔ عبدالعزیز بن باز 1940 اور 1950 کی دہائی میں سعودی عرب کو جدت پسندی کی راہ پر گامزن کرنے کی شاہی کوششوں کے خلاف تھے اور اس کے بارے میں تقاریر اور تنقید کرتے تھے،
لیکن بعد میں سعودی حکومت نے بن باز کو مرکزی مفتی کے عہدے پر فائز کر دیا تاہم ان کی تنقید ختم نہ ہوئی۔جہيمان بن محمد بھی انھی تقاریر سے متاثر ہوئے جس کے بعد انھوں نے عبدالعزیز بن باز کی قائم کی ہوئی سلفی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی جس کا مقصد سعودی عرب میں ‘اسلام کی اصل شکل برقرار رکھنا تھا’ اور سعودی عرب میں بڑھتی ہوئی مغربیت، مخلوط ماحول کا قیام اور ٹیلی ویژن کے منفی اثر کو ختم کرنا تھا۔
العتیبی کی شدت پسندی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی جس کے بعد 1978 میں سعودی حکومت نے انھیں ان کے کچھ ساتھیوں
کے ساتھ حراست میں لے لیا۔ رہائی ملنے کے باوجود العتیبی کے خیالات میں تبدیلی نہیں آئی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر انھوں نے نئی اسلامی صدی کے آغاز پر خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔
20 نومبر 1979 کو فجر کی نماز کے موقعے پر اپنے تقریباً 500 ساتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہو کر دروازے بند کر دیے اور ایک لاکھ نمازیوں کو یرغمال بنا کر مسجد کو اپنے زیر انتظام لے لیا۔
انھوں نے اپنے بہنوئی محمد بن عبداللہ القحطانی کو امام مہدی قرار دیا۔کرونا وائرس سے قبل یہ صدیوں میں پہلا موقع تھا جب خانہ کعبہ عام مسلمانوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
سعودی حکومت نے اس واقعے سے نمٹنے کے لیے اپنی فوج بھیجی لیکن خانہ کعبہ کے تقدس اور کم تربیت کی وجہ سے سعودی فوجی بغاوت کرنے والوں کے خلاف متاثر کن کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔سعودی حکومت نے خفت سے بچنے کے لیے مواصلاتی نظام بند کر دیا تاکہ اس واقعے کے بارے میں خبر محدود رہے لیکن وہ اس میں مکمل طور پر کامیاب نہ ہوئے۔
پاکستان میں اس خبر کے آنے کے بعد اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے پر حملہ کر دیا گیا کیونکہ ایران کی جانب سے اسے امریکی اور صیہونی سازش قرار دیا گیا تھا۔
مسلسل ناکامی کے بعد سعودی حکومت نے فرانس کی حکومت اور پاکستانی فوج سے مدد طلب کی۔
فرانسیسی کمانڈوز نے سعودی فوج کو ہنگامی تربیت دی تاکہ وہ شدت پسندوں کا خاتمہ کر سکیں لیکن کیونکہ مکہ میں غیر مسلم افراد کا داخلہ ممنوع ہے تو سعودی اہلکار پاکستانی فوجیوں کی مدد سے چار دسمبر کو یہ بغاوت بالآخر ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس واقعے میں مسجد کی عمارت کو کافی شدید نقصان ہوا لیکن خانہ کعبہ محفوظ رہا۔غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس واقعے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں شدت پسند، نمازی اور فوجی شامل تھے۔
جوہامن العتیبی سمیت 60 سے زیادہ شدت پسندوں کو حراست میں لے لیا گیا جنھیں جنوری 1980 میں سزائے موت سنا دی گئی۔ جوہامن العتیبی کے بہنوئی القحطانی جنھیں امام مہدی قرار دیا گیا تھا، دوران آپریشن ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد سعودی حکومت نے ملک کے علما سے مشاورت کے بعد شریعہ قوانین کے اطلاق کا وعدہ کیا جس کے بعد سے ملک سے مخلوط نظام پر مکمل پابندی لگا دی گئی اور ملک میں سابق بادشاہ شاہ فیصل اور اُس وقت کے بادشاہ شاہ خالد کی اعتدال پسند پالیسیوں کو ختم کر دیا گیا۔کئی مبصرین کے مطابق جہاں اس واقعے کے بعد سے سعودی عرب میں وہابی اسلام کا بول بالا ہوا، دوسری طرف اسی سال دسمبر 1979 روس کی جانب سے افغانستان پر حملے نے خطے کی سیاست پر دور رس اثرات قائم کیے۔