ایک شخص کے تین بیٹے


ایک شخص کے تین بیٹے تھے ایک انجینئر ایک ڈاکٹر اور ایک بینکر تھا اس شخص نے مرتے اپنے بیٹوں کو نصیت کی کہ اس کا ہر بیٹا اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر میں ایک لاکھ روپیہ رکھے گا ۔

جب وہ شخص فوت ہو گیا تو وصیت کے مطابقاس کی تدفین کے وقت انجینیئر بیٹے نے ایک ہزار روپے والا پورا پیکٹ اپنے والد کی قبر میں رکھ دیا۔اس کے بعد اس کے ڈاکٹر بیٹے نے پانچ ہزار روپے کے بیس نوٹاپنے باپ کی قبر میں رکھ دیئے۔۔بینکر بیٹے نے جیب سےچیک بک نکالی، لاکھ کا چیک کاٹا اور اور دو لاکھ روپے قبر سے اٹھا کر تین لاکھ کا چیک رکھ دیا صاب اب میرا کام ہو جائے گا نا؟اس نے دیوار کی طرف رخ موڑا اور تیزی سے کپڑے پہننے لگی۔

ہاں ہاں بھئی ہو جائے گا۔ میری سانسیں ابھی بھی بے ترتیب تھیں۔ پھر میں پیسے لینے کب آؤں؟ دوپٹے سے اس نے منہ پونچھا اورپھر جھٹک کر لپیٹ لیا۔پیسے ملنے تک تو تمہیں ایک دو چکر اور لگانے پڑیں گے۔ کل ہی میں مالکان سے تمہارے شوہر کا ذکر کرتا ہوں۔میں نے شرٹ کے بٹن لگائے۔ ہاتھوں سے بال سنوارے اور دفتر کے پیچھے ریٹائرنگ روم سے باہر احتیاط کے طور پہ ایک طائرانہ نظر دوڑانے لگا۔ویسے تو دفتر کا چوکیدار مجھ سے چائے پانی کے پیسے لے کر میرا خیر خواہ ہی تھا

لیکن میں کسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ پھر میں کل ہی آ جاؤں؟ وہ میرے پختہ جواب کی منتظر تھی۔نہیں کل نہیں!!! میںکل نہیں!!! میں اس روز یہاں آ نے کا رسک نہیں لے سکتا تھا اس لئے بس آہ بھر کر رہ گیا۔ہائے غریبوں کو بھی کیسے کیسے لعل مل جاتے ہیں ۔ میں نظروں سے اس کے جسم کے پیچ و خم کو تولنے لگا۔ ارے سنو!! تم نے شلوار الٹی پہنی ہے۔وہ چونک کر اپنی ٹانگوں کی طرف جھکی اور خجل ہو گئی۔ اسے اتار کر سیدھی پہن لو۔

میں چلتا ہوں میرے پانچ منٹ بعد تم بھی پچھلے دروازے سے نکل جانا۔ اور ہاں! احتیاط سے جانا کوئی دیکھ نہ لے تمہیں یہاں۔زیمل خان چار سال سے ہماری فیکٹری میں رات کا چوکیدار تھا۔ دو مہینے پہلے ڈاکوؤں کے ساتھ مزاحمت کے دوران اسے ٹانگ پر گولی لگی اور اب بستر پر لاچار پڑا تھا۔ فیکٹری کے مالکان اس کی امداد کے لئے پچاس ہزار روپے دینے کا اعلان کر کے بھول چکے تھے۔

اس کی بیوی اسی سلسلے میں بار بار چکر لگا رہی تھی۔ میں نے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور چھٹی کے بعد شام کو اسے فیکٹری آنے کا اشارہ دیا۔!عمر! عمراپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے عقب سے مجھے اپنی بیوی کی آواز سنائی دی۔ اس کے اور میرے گھر آنے کا وقت ایک ہی تھا۔وہ ایک چھوٹے بینک میں کلرک تھی۔ایک خوشخبری ہے عمروہ تیزی سے اوپر آ رہی تھی۔ خوشی سے اسکی باچھیں کھل رہی تھیں۔

منیجر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں اور آج ہی انہوں نے میرے پروموشن کی بات کی ہے۔ دروازے کے سامنے اس نے ہینڈ بیگ ٹٹولا اور چابی نکالانہوں نے کہا تھوڑا وقت لگے گا مگر کام ہو جائے گا۔ارے واہ مبارک ہو۔ میں نے خوشدلی سے اسے مبارکباد دی۔تمہیں پتا ہے مجھ سمیت پانچ امیدوار ہیں مگر ڈائریکٹر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں۔ کیوں نہ ہوں میں محنت جو اتنی کرتی۔

وہ اندر داخل ہوتے ہوئے بھی مسلسل بولے جا رہی تھی۔میں اسکی پیروی کرتے ہوئے اس کی فتح کی داستان سے محظوظ ہو رہا تھا کہ۔۔ اچا نک میری نظر اسکی الٹی شلوار کے ریشمی دھاگوں س الجھ گئی

اپنا تبصرہ بھیجیں