شرافت کی طاقت
سابق وائس پریسیڈنٹ آف انڈیان محمد مہدایت اللہ صاحب(1990۔1905) کا ایک واقعہ ہے۔یہ واقعہ ان کے پی اے مسٹراطہر صدیقی ایم اے نے مجھے بتایا۔انہو ں نے بتایا کہ ایک بار پنجاب کے سکھ پیشوائوں کا ایک ودفد ہدایت اللہ صاحب سے ملنے کے لئے نئی دہلی آیا، وہ لوگ اپنی روایات کے مطابق، کر پان لگائے ہوئے تھے، وائس پریسڈنٹ کی سرکاری رہائش گاہ پر سیکورٹی کے جو لوگ تھے، انہوں نے سکھوں سے کہا کہ آپ لوگوں اپنی یہ کرپانیں باہر ہمارے پاس رکھ دیں۔اس کے بعد وائس پریسیڈنٹ سے ملنے کے کے لئے اندر چلے جائین۔ وہ لوگ اپنی کرپانیں باہر چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔
اب بات بڑھی سیکورٹی افسر نے ٹیلی فون کے ذریعہ وائس پریسیڈنٹ کے سیکرٹری سے رابطہ قائم کیا ور صورت حال بتائی، سیکرٹری نے آرڈر دے دیا کہ انہیں کرپانوں کے ساتھ اندر مت نہ جانے دو، اور اگر وہ اس طرح اندر جانے پر اصرار کریں تو ان کو گرفتار کرلو۔
اطہر صدیقی صاحب نے بتایا کہ میں نے موقع کی نزاکت کو محسوس کیا چنانچہ میں فوراً اندر گیا اورت ہدایت اللہ صاحب سے مل کر انہیں بتایا کہ یہا اس قسم کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے، اور سیکورٹی افسر اور سیکرٹری کا رویہ سراسر حکمت کے خلاف ہے۔آپ ملٹری افسر سے براہِ راست کہ دیں کہ وہ ان لوگوں کو نہ روکیں اور انہیں کرپانوں کے ساتھ اندر آنے دیں۔ہدایت اللہ صاحب معاملہ کی نزاکت کو سمجھ گئے، اور اس کے مطابق ٹیلی فون پر سیکورٹی افسر کو ہدایت دے دی۔
اس کے بعد سکھ وفد اپنی کرپانوں کے ساتھ اندر داخل ہوگا۔ہدایت اللہ صاحب کے سامنے پہنچتے ہی انہوں نے اپنی کرپانوں کو اتار کر ہدایت اللہ صاحب کے قدموں میں رکھ دیا۔انہوں نے کہا کہ کیا ہم کمینہ پن کریں گے کہ یہاں آکر آپ کے اوپر ان کرپانوں سے حملہ کردیں، آپ ہمارے لئے باپ کے برابر ہیں، ہم تو ایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔
حکمت سب سے بڑی طاقت ہے، اگر آپ حکمت کا طریقہ اختیار کریں تو مسلح دشمن بھی اپنے ہتھیار وں کو پھینک دے گا اورآپ کی انسانیت کے اعتراف میں آپ کے قدموں پر گر جائے گا۔