ایک مسلمان اور ہندو کے اپنے حلف سے وفاداری کا دلچسپ واقعہ۔۔۔
قارئین آج کے اس کالم میں ھم آپ کو پاکستانی سیاستدانوں کا اپنے حلف اور وعدوں سے منحرف ھونے کے دو انتہائی دلچسپ واقعات سنائیں گے جس سے آپ ان کی اخلاقی پوزیشن اور کردار کا بحوبی جائزہ لے سکتے ہیں۔ شورش کاشمیری پاکستانی سیاست کے نامور صحافی ، ادیب ، شاعر اور خطیب تھے۔
پاکستان کی تاریح میں آج تک 8 مقررین شعلہ بیان کہلائے شورش صاحب کا شمار بھی ان آٹھ مقررین میں ہوتا ھے۔ شورش صاحب اکتوبر 1957 ء میں اس وقت کے صدر سکندر مرزا سے ملاقات کے لئے گئے اس ملاقات کے دوران شورش صاحب کو محسوس ہوا کے اسکندر مرزا وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کی حکومت ختم کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں ۔
شورش صاحب نے ایوان صدر سے باہر آتے ہی وزیراعظم صاحب سے رابطہ کیا اورانہیں صدر کے عزائم کے بارے میں آگاہ کر دیا ۔ اسی شام حسین شہید سہروردی شورش کاشمیری صاحب سے ملنے کے لئے ان کی رہائش گاہ پرتشریف لائے اور آتے ہی کہنے لگے بڑے بھائی تمہارا خدشہ غلط تھا ‘ شورش صاحب نے وجہ پوچھی تو وزیراعظم سہروردی بولے میں تمہارے ٹیلی فون کے بعد سیدھا ایوان صدر گیا تھا اور میں نے سکندر مرزاسے اپنی حکومت کے مستقبل کے بارے میں پوچھا تھا اس وقت صدر کی بیگم صاحبہ بھی وہیں موجود تھیں۔
میں نے جب اپنی حکومت کے مستقبل کے بارے میں پوچھا تو سکندر مرزا فورأ اٹھے، انہوں نے اپنی بیگم ناہید مرزا کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا میں اپنی بیگم کے سر کی تم کھاتا ہوں میں تمہاری حکومت کے خلاف سازش نہیں کر رہا اگر میں نے تمہاری حکومت ختم کی تو اللہ تعالی میری بیوی کی جان لے۔ وزیراعظم سہروردی نے اس کے بعد شورش صاحب سے کہا میں مطمئن ہو گیا ہوں کیونکہ اگر صدر کے دل میں کوئی میل ہوتی تو وہ بھی اپنی بیوی کے سر کی قسم کبھی نہ کھاتے ،
شورش صاحب نے قہقہہ لگایا اور سہروردی سے کہنے لگے وزیراعظم صاحب کمال ہے صدر سکندر مرزا آپ کے ساتھ ساتھ اپنی بیگم سے بھی تنگ ہیں لہذا ان کی کوشش ہے آپ کی حکومت کے ساتھ ساتھ ان کی بیوی بھی اللّه کو پیاری ہو جائے ‘ سہروردی صاحب نے شورش صاحب کی بات نہ مانی۔نتیجہ وھی ھوا قسم کھانے کے باوجود اسکندر مرزا نے 17 اکتوبر 1957 کوسین شہید سہروردی کی حکومت ختم کردی ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسی طرح کا ایک اور دلچسپ واقعہ بھی موجود ہے۔ 1989 ء میں محترمہ بے نظیر کی حکومت تھی اس وقت کی مسلم لیگی قیادت نے محترمہ کے خلافقومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کرانے کا فیصلہ کیا اس تحریک کے لئے بعض غیر جانبدار ارکان اسمبلی کی خدمات بھی حاصل کی گئیں ۔ ان ارکان میں ہندو کمیونٹی کے ایک رکن اسمبلی رانا چندرسنگھ بھی شامل تھے ۔
مسلم لیگی قیادت نے تحریک سے چند دن پہلے ان ارکان سے قرآن مجید پر حلف لینے کا فیصلہ کیا تمام ارکان نے قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کیا تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلی میں محترمہ کے خلاف ووٹ دیں گے ۔ جب راتا چندرسنگھ کی باری آئی تو ان سے کہا گیا آپ گیتا پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کر دیں
رانا صاحب نے مسکرا کر جواب دیا ” میری زبان ہی کافی ہے آپ تحریک کے دن دیکھ لینے میں محترمہ کے خلاف سب سے آگے ہوں گا۔ اس حلف کے بعد جب عدم اعتماد پرونگ کا وقت آیا تو مسلم لیگی قیادت یہ دیکھ کر حیران رہ گئی جن ارکان نے قرآن مجید پرحلف اٹھایا تھا و محترمہ کے حق میں ووٹ دے رہے تھے جبکہ گیتاپر ہاتھ رکھ کر وعدہ نہ کرنے والے رانا چندرسنگھ بے نظیر بھٹو کے خلاف کھڑے تھے ۔ اس تاریخی موقع پر رانا چندرسنگھ نے ایک خوبصورت بیان دیا تھا “قرآن مجید پر قسم کھانے والے اپنے حلف سے منحرف ہو گئے لیکن زبان دینے والا اپنی زبان پر قائم رہا۔