ذوالفقار علی بھٹو کا وه حفیہ معاشقہ۔۔جو زیادہ دیر حفیہ نہ رہ سکا۔
قارئین جیسا کہ آپ سب تو جانتے ھی ھوں گے کے ذوالفقار علی بھٹو (زیڈ اے بی) پاکستان کے سب سے زیادہ رنگین مزاج، چمکدار ، واضح ، دلکش ، اعلی تعلیم یافتہ اور انتہائی ذہین سیاستدا ن تھے ۔ بھٹو کی پہلی شادی چھوٹی عمر میں ہی ان کی ایک کزن شیرین امیر بیگم سے ھو گئی تھی اور پھر دوسری شادی نصرت بھٹو سے ہوئی۔آج کے اس کالم میں ھم بھٹو صاحب کے ایک معاشقے کا ذکر کریں گے جو ایک حسنہ شیخ نامی خاتون کے ساتھ چلتا رہا اور پھر اس کا کیا ڈرامائی احتتام ھوا۔ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو ایک زمانے میں حسنہ شیخ نامی ایک حسین و جمیل مطلقہ سے عشق لڑا رہے تھے ۔
وہ باتھ آئی لینڈ پر ریل کی پٹریوں کے اُس پار رہتی تھی ۔ اس کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کا بندوبست کرتے ۔کھر کار کو ڈرائیو کرکے انہیں اس جگہ پہنچا دیتا جہاںملاقات ہونی ہوتی اور چند گھنٹے بعد جاکرلے آتا ۔مسٹر ذوالفقار علی بھٹو اس کے عشق میں دیوانہ وار مبتلا تھے حسنہ ا بھی یہی اداکاری کررہی تھی کہ اس کا ہاتھ آنا مشکل ہے اور اس مرحلے پر عشق کا جواب برابر کی شدت سے دینے پر آمادہ نہ تھی ۔
حسنہ شیخ کے ساتھ مسٹر ذوالفقار علی بھٹوکا الجھاوا انکے زوال کے بعد شہ سرخیوں کی زینت بنا ۔یہ راز کتنے ہی برس عیاں راچہ بیاں کی مثال بنا رہا ۔حسین اور زندہ دل حسنہ پر ان کی فریفتگی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب وہ ایوب خان کی حکومت میں وزیر تھے ۔حسنہ ایک بنگالی وکیل ،عبدالاحد سے بیاہی ہوئی تھی عبدالاحد شدید قوم پرستانہ رحجانات کا حامل تھا ۔ان کی شادی استحکام سے محروم تھی ۔عبد الاحد کو 1971ئ میں پر اسرار طور پر قتل کر دیا گیا تھا یاتو پاک فوج نے اسے ماردیا یا البدر کے کسی دہشت گرد سکواڈ نے اسے ٹھکانے لگا دیا ۔ستم ظریفی یہ کہ اس کے دوسرے عاشق یعنی مسٹر ذوالفقار علی بھٹوکا بھی یہی انجان مقدر تھا ۔
غلام مصطفی کھرمسٹر ذوالفقار علی بھٹوکو حسنہ کے اپارٹمنٹ پر چھوڑ آتا ۔اس خفیہ اور پر خطر آشنائی کے سلسلے میںمسٹر بھٹو کو کھر کے سوا کسی پر اعتماد نہ تھا ۔ایک بار کھر نے مسٹر بھٹو کو اپارٹمنٹ کے باہر اتارا اور چلاآیا ۔حسنہ اور مسٹر بھٹو میں کچھ پخ پخ ہوگئی ۔انجام اس کا یہ ہوا کہ سابق وزیر خارجہ اور آئندہ کے وزیر اعظم کو باہر دھکیل دیا گیا اوردروازہ اندر سے بند کرلیا گیا ۔مسٹر بھٹو کو روٹھوں کو منانے کے جو جو دل پذیر گر آتے تھے انہوں نے وہ سب آزماڈالے ۔مگر حسنہ پر کوئی اثر نہ ہوا۔دروازہ جو کہ بند کیا جاچکا تھا کھل نہ سکا ۔چنانچہ مسٹر بھٹو پید ل ستر کلفٹن کی طرف چل دئے رات بہت جا چکی تھی ۔ایک دن انہیںاسی سڑ ک سے چنگھاڑتے سائرنوں کے شور میں موٹر سائیکلوں کے جلوس کے ساتھ بڑ ی شان سے گزرنا تھا لیکن اس وقت تو گھر پہنچے کےلئے ایک لمبا اور تھکا دینے والا راستہ طے کرنا باقی تھا ۔جب بالاخر مسٹر بھٹو صدر بن گئے تو انہوںنے فوراً حسنہ کو بلا بھیجا ۔کھر بتاتا ہے کہ وہ فرش پر بیٹھی رہتی اورمسٹر بھٹو کوفی کی چسکیاں لیتے اور سگار پیتے رہتے ۔
مسٹر بھٹو کا ایک ہاتھ حسنہ کے بالوں سے کھیلتا رہتا ۔وہ نہایت تیز طبع تھی۔مسٹر بھٹو اسکے ساتھ سیاست پر تبادلہ خیال کرتے وہ مسٹر بھٹو کے بہت سے فیصلوں پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہوئی۔جب اس کی بیٹی کی شادی سر پر آپہنچی تو حسنیٰ نے مسٹر بھٹو پر زور دیا کہ ان کے تعلق کو قانونی حیثیت دینے کا وقت آگیا ہے ۔اس کی بیٹی کے مستقبل کا سوال جو تھا ۔مسٹر بھٹو نے کہا کہ کچھ میری بات مان لو ،کچھ میں تمہاری بات مان لیتا ہوں ۔ حسنیٰ کو دوسری بیوی بنا کر گھر لانے سے ایک عالم میں فضیحت ہوتی ۔وہ یہ خطرہ مو ل لینے کو تیار نہ تھے ۔انہوںنے کہا کہ وہ قرآن پر لکھے دیتے ہیں کہ انہوںنے اﷲ کی نگاہ میں حسنہ کو اپنی بیوی کے طور پر قبول کرلیا ہے ۔
حسنیٰ راضی ہوگئی مسٹر بھٹو نے اپنا کہا پورا کیا اور حسنہ نے قرآن کو اپنے پاس محفوظ کرلیا ۔ گھر لوٹ کر مسٹر بھٹو کونظر آیا کہ بطور قائد انکا چراغ اب کسی بھی وقت گل ہوسکتا ہے وہ بہت گھبرائے اور کھر کو طلب کیا۔منصوبہ یہ تیار ہوا کہ جب حسنہ اپنے گھر پر نہ ہوتو قرآن کو چرالیا جائے۔خانہ دزدی کی واردات کا انتظام کیا گیا مگر خانہ دزد نرے گوکھلے نکلے وہ صرف قرآن چراکرلے آئے ۔واٹر گیٹ سکینڈل میں ملوث اپنے جیسے اناڑیوں کی طرح انہوں نے بھی کام چوپٹ کردیا ۔حسنیٰ کو پتہ چل گیا کہ اس کا
مقدس نکاح نامہ کس نے چرایا ہے؟مسٹر بھٹو نے قدرتی طور پر چوری کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا
نصرت بھٹو کومسٹر بھٹو کے اس بالا بالا معاشقے کا علم تھا ۔اسنے بے کل ہوکر نوٹ کیا کہ حسنیٰ کااثر بڑھتا جارہاہے ۔ وہ جانتی تھی کہ مسٹر بھٹو کے بیشتر وزیروں نے بھانپ لیا ہے کہ اصل طاقت کس کے ہاتھ میںہے ؟اور وہ لوگ ہر وقت حسنیٰ کے دربار میں حاضر رہتے تھے ۔ایک مرحلہ ایسا آیا کہ نصرت بھٹو نے مسٹر بھٹو کو چھوڑ کر اپنے وطن ایران چلے جانے کافیصلہ کرلیا ۔مسٹر بھٹو کے ہوش اُڑگئے نصرت سیاسی طور پر ناگزیربن چکی تھی ۔ انہوںنے کھر کا سہارا لیا اور کہاکہ وہ نصرت کے پاس جاکر ان کے کیس کی پیروی کرے ساتھ ہی انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی راہ راست سے نہیں ہٹیں گے ۔کھر بذریعہ طیارہ اسلام آباد پہنچا اورمبتلائے اضطراب خاتونِ اول کو قائل کرنا چاہا کہ وہ اپنے شوہر سے تعلق قطع نہ کرے۔نصرت گھربار چھوڑ چھاڑ کر چل دینے پر تلی ہوئی تھی ۔
کھر کی زبانی ملنے والے زیادہ ہوش مندانہ مشوروں کی وجہ سے یہ معاملہ ، جو کہ بگڑ کر ایک سکینڈل بن سکتا تھا ۔سلجھ گیا ،خطرہ ٹل گیا ۔نصرت واپس تو آگئی مگر شوہر کے ساتھ اس کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ۔کلفٹن میں حسنہ کاگھر نظر عنایت کے طلبگاروں ،چاپلوسوں ،مشکل میں پھنسے وزیروں اور سرکاری افسروں کا پسندیدہ اڈا بن گیا۔کسی بھی شام کو وہاں جانے پر کوثر نیازی،جام صادق علی ، غلام مصطفی جتوئی،کھر ،عبدالحفیظ پیرزادہ ،طالب المولیٰ ،رسول بخش ٹالپر ممتاز بھٹو وغیرہ جیسے افراد سے ا تفاقاً آمنا سامنا ہوسکتا تھا ۔
جب مسٹر بھٹو پشت بہ دیوار ہوکر پاکستا ن قومی اتحاد کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھے تو اخبارات میں حسنہ کے ساتھ انکے ناجائز تعلق کا اکثر ذکر آ نے لگا تو مسٹر بھٹو نے ایک ریلی میں سرعا ٰم اعلان کیا کہ ان کاحسنیٰ کے ساتھ کوئی تعلق نہیںہے اورمکر گئے کہ انہوں نے حسنیٰ سے شادی کررکھی ہے ۔یہ اعلان کرنے سے پہلے انہوں نے حسنیٰ کی منت کی تھی کہ وہ خاموش رہے اور اس سرعام تردید کی رسوائی کو برداشت کرلے ۔حسنیٰ پر ہمیشہ ہمیشہ کےلئے آفرین ہے کہ اس نے کبھی زبان نہیں کھولی۔