حضرت آدمؑ
آپ کا ذکر قرآن پاک میں مندرجہ ذیل مقامات پر ہے:۔
- سورۃ بقرہ، پارہ اوّل رکو ع3۔
- سورۃ مائدہ، پارہ 4 رکوع 6۔
- پارہ 8 سورۃ اعراف رکوع 2۔
- پارہ 9 سورۃ اعراف رکوع 26۔
- پارہ 16 سورۃ الحجر، رکوع3
- پارہ 15، سورۃ بنی اسرائیل، رکوع 7
- پارہ 15، سورۃ کہف، رکوع 7
- پارہ 12، سورۃ طہٰ رکوع 7
- پارہ 21 سورۃ سجدہ، رکوع 1
- پارہ 23 سورۃ ص، رکوع 5
- پارہ 27، سورۃ رحمن، رکوع 1۔
حضرت آدمؑ کی پیدائش سے پہلے پروردگار عالم جل جلالہ نے اپنے بڑے احسان کے ساتھ فرشتوں کی جماعت میں آدم ؑ کی پیدائش کا ذکر کیا، چناچہ ارشا د ہے:۔
ترجمہ:۔
“اور جب کہا تیرے رب نے واسطے فرشتوں کے بے شک میں پیدا کرنے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ ہے”
جب ملائکہ نے یہ حکم سنا تو معلوم کرلیا کہ آدمؑ خدا کا بڑا برگزیدہ بندہ ہوگا،نمبر ایک اس کی پیدائش سے پہلے ہی منادی کردی۔ نمبر2 یہ کہ وہ خدا کا نائب ہوکر زمین میں حکومت کرے گا مگر جب فرشتوں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس ک خمیرہ اور مادہ ایسے اجسام مختلف الطبائع سے ہوگا کہ جن کو قوت شہویہ و غضبیہ بھی لازم ہے کہ جس سے خواہ مخواہ بدکاری وغیرہ فسادات ظہور میں آئیں گے، پھر نہایت عاجزی اور انکساری سے سوال کیا کہ الہٰی پرھ ایسے کو خلیفہ بنانے کی کیا حکمت ہے، رہی تیری تسبیح و تقدیس تو اس کے لئے ہم ملائکہ موجود ہیں جن میں قوت غضبیہ اورشہویہ کا مادہ ہی نہیں۔
پروردگار عالم نے فرمایا کہ جو کچھ مجھے معلوم ہے وہ تم کو معلوم نہیں (تفیسر حقانی)
(فرشتوں کا سوال) چنانچہ ارشاد ہے:
ترجمہ:۔
“کہا فرشتوں نے کیا تو کرتا ہے زمین میں اس کسی کو جو فساد کرے زمین میں اور بہائے خون اور ہم تیری تعریف کے ساتھے تسبیح اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں، پروردگارِ عالم نے فرمایا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
خلفیہ کا یہ مطلب ہے کہ یکے بعد دیگرے تمام انبیا کرام خلفیہ رہیں گے فرشتوں نے اَتَجعلُ اعتراض اور حسد کے طور پر نہ کہا تھا ایک تو پہلے جنات کے حالات دیکھ کر کہا تھا، جن کا ذکر عنقریب آنے والا ہے اور لوگوں میں سب ہی تو نیک نہیں ہوتے بلکہ مساوی بھی ہوتے ہیں اور فرشتے نوری مخلوق ہے ان میں حسد بخل وغیرہ کا تو مادہ ہی نہیں، باقی ہر مخلوق خون بہانے والی اور فسادی ہوتی ہے اس لئے فرشتوں نے اَتَجعلُ کہا تھا، لیکن پروردگاِ عالم جل جلالہ نے فرمایا باوجود فسادوں جو بھی مصلحتیں ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں، تمھارا علم وہاں تک نہیں پہنچ سکتا، میں جانتا ہوں کہ اِن میں انبیاء اور صدیق اور شہید، عابد زاہد اور اولیاء نیکو کار ابرار اور مقرب بارگاہِ الہٰی ہوں گے اور علماء صلحاء پرہیز گار بھی ہوں گے۔
حضرت ان عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) فرماتے ہیں کہ پہلے زمین پر جنات کئی ہزار سال حکومت کرتے رہے سب زمین پر قابض تھے حیوانات بناتات سے نفع اُٹھاتے اور آسمان پر آتے جاتے تھے، پھر جنوں نے فساد مچایا، خون ریزی شروع کی، پھر پروردگارِ عالم جل جلالہ نے آسمانِ دنیا کے فرشتوں کو حکم دیا کہ جنوں کو زمین سے زور کر و تاکہ اُن کی آلودگی سے زمین پاک ہوجائے ، پھر فرشتوں نے خدا کے حکم کے موافق جنوں کو مار مار کر پہاڑوں اور جنگلوں جزیروں میں پہنچا دیا۔
ابلیس لعین بھی ان ہی میں سے تھا اس کا نام عزازیل تھا اور علم اور عبادت کے سبب سب جنوں سےممتز اور الگ تھا اور فرشتوں میں رہتا تھا اور وہ بھی فرشتوں کے ہمراہ آسمان پر گیا اور عُذر بنایا کہ میں اور میری اولاد ان فسادوں میں شریک نہ تھے، حق اللہ تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کو سفارش کے سبب سے مارنے اور نکالنے سے محفوظ رکھا۔پھر شیطان کو یہ طمع ہوا کہ سب جنوں کو مار کر نکالا گیا ہے بغیر میرے اب میں ان کی جگہ قابض اور متصرف رہوں گا۔ پرھ عبادت میں زیادہ کوشش کرنی شروع کی، جب آسمان کی طرف سے دنیا کے فرشتوں کو کوئی حکم پہنچتا تو یہ لعین فرشتوں سے بھی پہلے اس کام کو پہنچتا اور فرشتوں کے ساتھ اس کام کو سرانجام دیتا، پھر آسمان میں اس کی قدر و منزلت اور زیادہ ہوگئی اور اپنے دلِ میں اس بات کا اُمیدہوار ہوگیا کہ اب دُنیا کی خلافت مجھے ملے گی، جب خُدا کا حکم فرشتوں کو پہنچا کہ:۔
ترجمہ:۔
” اس وقت شیطان نے جانا کہ یہ قدر و منزلت خدا مجھے نہ دے گا، سب بندگی اور عبادت ریاکاری کی تھی اس لئے اُسکے دل میں حسد جوش کرگیا ۔(تفیسر عزیزی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی)
جناب کئی ہزار سال آدم ؑ کی پیدائش سے پہلے دُنیا پر آباد تھے، ارشاد ربانی ہے:۔
ترجمہ:۔
“البتہ پیدا کیا ہے انسان کو ہم نےبجنے والی مٹی سے جو بنی ہوئی تھی کیچڑ سٹری ہوئی سے اور پیدا کیا جنوں ک و پہلے اس سے آگ لُو والی سے”۔
ابلیس عبادت کی وجہ سے جنات سے جُدا ہوکر فرشتوں میں رہتا تھا جیسا کہ بیان ہوچکا ہے۔