میثاق

تفسیر عزیزی میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ نے بیان کیاہے کہ جب حضرت آدمؑ کے تمام بدن میں روح پھیل گئی تو حکم ہوا کہ فرشتوں کے پاس جا اور ان کو اسلام علیکم کر پھر دیکھ کیا جواب دیتے ہیں پھر آدمؑ فرشتوں کی طرف گزرے اور کہا السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ، حکم ہوا کہ یہی کلمات تحیہ تیرے اور تیری اولاد کے لئے ہم نے مقرر کئے، پھر آدمؑ نے عرض کیا کہ خداوندی میری ذریت کیا ہے، فرمایا کہ ذریت تریری میرے دونوں ہاتھوں میں ہے، ان دونوں ہاتھوں میں سے جس کو توچاہے اسی میں سے پہلے تجھ  کو دکھلاو، حضرت آدمؑ نے عرض کیا میں پہلے دایاں ہاتھ اختیار کرتا ہوں، پھر پروردگارِ عالم جل جلالہ نے اپنا قدرتی دایاں ہاتھ حضرت آدمؑ کی پشت پر پھیرا تو ان کی پشت سے جس قدر نیک بخت لوگ قیامت تک پیدا ہوں گے اُن کی صورتیں حضرت آدمؑ کو دکھائیں، پھر دوسرا ہاتھ حضرت آدمؑ کی پشت پناہی پر پھیرا تو بدبختوں کو نکالا اور حضرت آدمؑ کو دکھلائے، آدم ؑ نے اپنی اولاد کی صورتیں دیکھیں ان میں بڑا فرق نظر آیا، خوبصورت اور بدصورت تونگر مفلس لمبے قد، چھوٹے قد، اندھے لولے وغیرہ، وغیرہ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد لیا (تفسیر عزیزی)

لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جو بروایت قوی امام احمدونسائی اور حاکم نے نقل کیا ہے کہ یہ عہدو اقرار جب حضرت آدم ؑ کو جنت سے زمین پر اُتارا گیا تھا اس وقت لیا گیا اور مقامِ اقرار  وادیِ نعمان ہے جو  میدانِ عرفات کے نام سے مشہور ہے (تفسیر مظہری و تفسیر معارف القرآن) واللہ اعلم بالصواب۔

اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے سب نیک اور بَدکی روحوں کو آدمؑ کی پشت سے نکال کر وادیِ نعمان میں عہدوں پیمالیا، ارشاد فرمایا کہ بتاو کیا میں تمھارا رب نہیں؟ سب روحیں کہنے لگیں کیوں نہیں تو ضرور ہمارا رب ہے، جیسا کہ پروردگارِ عالم جل جلالہ نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ:۔

“اور جب آپ کے رب نے آدمؑ کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا  کہ تمہار رب نہیں ہوں، سب نے جواب دیا کیوں کہیں، ہم سب گواہ ہیں تاکہ تم لوگ قیامت کے روزیوں نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے”۔

پروردگارِ عالم جل جلالہ نے آدمؑ کی ذریت کو اُن کی پشت سے روزِ ازل میں باہر نکالا اور انہوں نے اپنے نفوس پر خود گوالہی دے دی کہ اللہ ہمارا رب ہے۔حضرت ضحاک ؒ نے فرمایا کہ روزِ ازل میں جب اللہ تعالیٰ نے صلب آدمؑ کو چُہوا تو اس سے وہ روحیں نکل پڑیں جو قیامت تک نسل آدمؑ سے ہونے والی ہیں، پھران سے وعدہ لیا گیا کہ عبادت صرف اللہ کی کریں گے اور کسی کو شریک نہ بنائیں گے، جب تک یہ اہل میثاقِ پید ا ہوتے جائیں گے قیامت نہ آئے گی، حضورﷺ نے فرمایا کہ جب پروردگارِ عالم جل جلالہ نے آدمؑ سے ذُریات نکالی تو اس طرح نکلی جیسے کنگھی کرنے سے بال کنگھی کے اندر ہوجاتے ہیں، اس میثاق میں فرشتے بھی گواہ تھے، حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے آدم ؑ کو پیدا کرکے ان کی پیٹھ پر جب ہاتھ پھیرا تو ذریات نکلنا شروع ہوگئیں، تو فرمایا کہ فلاح فلاح تو جنتی ہیں کیونکہ اہل جنت ہی کا ساعمل کریں گے اور یہ دوزخی ہیں کیونہ اہلِ نار کاساعمل کریں گے، کسی نے دریافت کیا یارسولﷺ جب وہاں طے ہوچکا ہے تو پھر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا اللہ کا وہی بندہ جنت کے لئے پیدا کیا گیا ہے جس کے عمل جنتیوں کے ہوں گے اور دوزخی وہی ہے جو دوزخیوں کے کام کرے اور اسی عمل پر قبل از توبہ دم ٹوٹے اور حضورﷺ نے فرمایا کہ جب روحیں صلب آدم سے ظاہر ہوئیں تو ہر انسان کے ماتھے پر ایک روشنی چمک رہی تھی، تمام نسل کو آدمؑ کے سامنے پیش کیا ، آدمؑ نے دریافت کیا کہ اے رب یہ کون ہیں؟ فرمایا یہ تمھارے نسل ہے ایک شخص کے چہرے پر بہت زیادہ روشنی تھی، آدم ؑ نے دریافت کیا  یا رب یہ کون ہے؟ فرمایا یہ داودؑ ہیں، آدمؑ نے کہا ابھی تو میری عمر سے چالیس ہزار سال باقی ہیں جواب دیا یہ چالیس سال تونے اپنے بیٹے داودؑ کو نہیں دیئے تھے، یہ بھول چوک اب نسل میں بھی ہے، آدمؑ نے اپنی ذُریت دیکھی اس میں بیمار حزامی، برص والےاندھے وغیرہ سب تھے، ، انبیاء علیم السلام سراپا نور تھے، میثاقِ کے عہد پر آسمان اور زمین بھی گواہ ہوئے تاکہ قیامت کے دن کچھ عذر نہ ہو۔آدم ؑ نے اپنی ذریت میں غنی فقیر، خوبصورت سب دیکھے (تفیسر ابن کثیر)

میثاق کے وعدے اور قول اقرار اور گواہی کو پروردگارِعالم جل جلالہ  نے حجر اسود میں امانت رکھ دیا تھا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جو کوئی حج کرے گا حجرِاسود اس کی گواہی دے، حضرت آدمؑ نے جب اپنی اولاد دیکھی تو عرض کیا اے رب یہ دُنیا میں کس طرح سمائیں گے پروردگارِعالم جل جلالہ نے فرمایا کسی کو زمین میں رکھوں گا یعنی مرجائیں گے اور کسی کو ماوں کے پیٹوں میں اور کسی کو باپوں کی پشتوں میں رکھوں گا۔

امام مالک ؒ، ابوداودؒ، ترمذیؒ  اور امام احمدؒ نے بروایت مسلم بن یسار نقل کیا ہے کہ ک چھ لوگوں نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ رسول ﷺ سے میں نے سنا ہے کہ پروردگارِعالم جل جلالہ نے آدمؑ کو پیدا فرمایا پھر اپناد ستِ قدرت ان کی پشت پرپھیرا تو اُن کی پشت سے جو نیک انسان پیدا ہونے والے تھے وہ نکل آئے تو فرمایا کہ ان کو میں نے جنت کے لئے پیدا کیا اور یہ جنت ہی کے کام کریں گے، پھر دوسری مرتبہ ان کی پشت پر اپنا دستِ قدرت ان کی پشت پر پھیرا تو اُن کی پشت سے جو نیک انسان پید اہونے والے تھے وہ نکل آئے تو فرمایا کہ ان کو میں نے جنت کے لئے پیدا کیا اور یہ جنت ہی کے کام کریں گے، پھر دوسری مرتبہ ان کو پشت پر اپنا دستِ قدرت پھیرا تو جتنے گنہگار بدکردار اُن کی نسل سے پیدا ہونے والے تھے ان کو نکالا، پھر فرمایا ان کو میں نے دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے، اور یہ دوزخ میں جانے ہی کے کام کریں گے اور امام احمد ؒ کی روایت میں یہ مضمون بروایت ابوداودؑ منقول ہے کہ پہلی مرتبہ جو لوگ آدمؑ کی پشت پناہی سے نکلے تھے، وہ سفید رنگ کے تھے اور دوسری مرتبہ سیاہ رنگ کے تھے جن کو اہلِ دوذخ قرار دیا۔ اور ترمذیؒ میں یہی مضمون بروایت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ منقول ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد آدمؑ سے جو ظہور میں آئی اُن میں سے ہر ایک کی پیشانی پر ایک خاص قسم کی چمک تھی  ارواح کو ایک چیونٹی کے جسم میں پیدا فرمایا تھا اور تمام ارواح کو عقل و شعور عطا فرماکر عہد لیا تھا، اصل اسی اقرار نے ہر انسان کے دل میں معرفت حق کا ایک بیچ ڈال دیا جو پرورش پارہا ہے،  چاہے اس کو خبر ہو یا نہ ہو اور اسی بیچ کے پھل پھول ہیں کہ ہر انسان کی فطرت میں حق تعالیٰ کی محبت و عظمت پائی جاتی ہے اور بعض اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ہیں جن کو وہ اقرار  یاد ہے جیسا کہ حضرت ذوالنون مصریؒ نے فرمایا کہ یہ عہد و میثاق مجھے ایسا  یاد ہے گویا کہ اس وقت سُن رہا  ہوں۔(تفسیر معارف القرآن)

اپنا تبصرہ بھیجیں