مال اوراولاد کے لئے خرام كمانے والے۔۔۔۔
قارئین آجکی یہ تحریر دولت، عہدے اور اولاد کی بےوفائی سے متعلق ہے جسکی آپ چند عبرت ناک ملاحظہ مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔۔
اصفہانی خاندان کا تعلق کلکتہ سے تھا، یہ لوگ کلکتہ کے انتہائی امیر خاندانوں میں شمار ہوتے تھے،
ابو الحسن کا تعلق اسی اصفہانی خاندان سے تھا، یہ کیمبرج میں پڑھتے تھے، وہاں قائداعظم کی تقریر سنی، قائداعظم کے عاشق ہو ئے اور باقی ساری زندگی قائداعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کی خدمت میں گزار دی، مسلم لیگ کے ساتھ مختلف عہدوں پر کام کیا، پاکستان بنا تو ابو الحسن اصفہانی کروڑوں روپے کے اثاثوں کے ساتھ پاکستان شفٹ ہو گئے،
ڈھاکہ اور کراچی دونوں ان کے کاروباری مرکز تھے، ان دونوں شہروں میں ان کے کارخانے، کوٹھیاں، پلازے، فارم ہاؤسز اور زمینیں تھیں، الغرض اصفہانی خاندان معاشی اور تجارتی میدانوں میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا رہا ۔ یہ ایوب خان دور میں ان 22 خاندانوں میں شامل تھے جو ملک کے زیادہ تر وسائل کے مالک تھے، اصفہانیوں کے بارے میں کہا جاتا تھا،
آپ پاکستان کے کسی حصے سے کوئی چیز خریدیں منافع کا ایک حصہ کسی نہ کسی ذریعے سے ہوتا ہوا اصفہانی گروپ تک پہنچ جائے گا، ابوالحسن اصفہانی کے تین بچے تھے، یہ خاندان ایوب خان اور بھٹو کے زمانے میں کھرب پتی ہو گیا، بھٹو صاحب نے صنعتیں قوما لیں لیکن اس کے باوجود اصفہانی خاندان کے پاس کراچی میں اربوں روپے کی پراپرٹی تھی۔ 1990
ء کی دہائی میں خاندان کا جائیداد کے لینے جھگڑا شروع ہوا، عدالتوں اور کچہریوں کا معاملہ چلا تو نوبت یہاں تک آ گئی وہ کراچی شہر جو کبھی اصفہانی خاندان کا گھر کہلاتا تھا اس شہر میں ابوالحسن اصفہانی کے بڑے بیٹے سکندر اصفہانی کے رہنے کے لیے کوئی چھت نہ بچی، سکندر اصفہانی سندھ کلب میں شفٹ ہو گئے،
یہ دو سال کلب میں رہے اور دسمبر 2013ء میں سندھ کلب میں ہی انکا انتقال ہوا ، کلب سے ان کا جنازہ اٹھا، جنازے میں چند لوگ شامل تھے اور ان لوگوں میں ان کے خاندان کا کوئی شخص شامل نہیں تھا۔ یہ دولت کی بے وفائی اور دنیا کی بے ثبانی کا ایک واقعہ ہے، آپ اب پاکستان کے پانچ بڑے صنعتی گروپوں میں شامل ایک دوسرے خاندان کی کہانی بھی ملاحظہ کیجیے۔
سہگل خاندان ایوب خان دور کے 22 خاندانوں میں پہلے پانچ خاندانوں میں شمار ہوتا تھا، یہ لوگ چکوال کے رہنے والے تھے، یہ دوسری جنگ سے قبل کلکتہ گئے، وہاں چمڑے کا کاروبار شروع کیا اور اس کاروبار پر چھا گئے۔ یہ لوگ قیام پاکستان کے بعد کراچی آ گئے، سہگل خاندان نے پچاس کی دہائی میں کوہ نور ٹیکسٹائل کے نام سے فیصل آباد اور راولپنڈی میں دو کارخانے لگائے،
یہ کارخانے اتنے بڑے اور کامیاب تھے کہ آج بھی ان علاقوں کو کوہ نور کہا جاتا ہے، ایوب خان کا دور سہگل خاندان کے عروج کازمانہ تھا، سہگلوں نے پاکستان کا تیسرا بڑا بینک بنایا تھا، یہ گھی، کپڑا ، کیمیکل اور مشینری سمیت جس شعبے میں بھی آئے، عروج کو ہاتھوں میں تھام لیا، محمد یوسف سہگل اس خاندان کے سربراہ تھے، یہ 1993ء میں فوت ہوئے،
ان کی تدفین سے قبل خاندان میں پھوٹ پڑ گئی، بچے دولت اور جائیداد کے لیے لڑنے لگے اور آج اس خاندان کا صرف نام بچا ہے۔کہتے ہیں سهگل خاندان کے سب سے بڑے حاجی صاحب کی تدفین بھی ان کے ملازمین نے کی تھی۔ آپ اب لاہور کے ایک فلم ساز کی کہانی بھی سنیے، وہ پاکستان کے چوٹی کے فلم ساز تھے، یہ پشاور کے رہنے والے تھے،
یہ 21 سال کی عمر میں فلمی لائین میں آئے، صوبہ سرحد میں فلموں کے ڈسٹری بیوٹر بنے، انھوں نے صوبہ سرحد میں ذاتی سینما بنالیے، یہ قیام پاکستان کے بعد لاہور شفٹ ہوئے۔جہاں انھوں نے پاکستان کا معروف فلم اسٹوڈیو بھی بنا لیا ، اس اسٹوڈیو میں سیکڑوں فلمیں بنیں۔ ملک کے درجنوں سپرسٹارز نے اس اسٹوڈیو میں آنکھ کھولی،
وہ فلمساز لاہور کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے، گلبرگ میں ان کی کئی کنال کی کوٹھی تھی، یہ 1974ء میں بیمار ہوئے اور گھر تک محدود ہو گئے،معروف سینئر وکیل نعیم بخاری صاحب نے ان دنوں نئی نئی پریکٹس شروع کی تھی، یہ ان فلمساز کے ایک صاحبزادے کے وکیل تھے، اسی صاحبزادے نے ایک دن نعیم بخاری کو ساتھ لیا اور والد کے گھر پہنچ گیا،
مرحوم لیجنڈ اداکار محمد علی بھی وہاں موجود تھے، بیٹے نے باپ سے جائیداد کا مطالبہ کر دیا، وہ والد سے گلبرگ لاہور والی کوٹھی لینا چاہتا تھا، باپ نے بیٹے کی منت کی ” میں بیمار ہوں، میں اس حالت میں کہاں جاؤں گا، میں آپ کو یہ کوٹھی لکھ دیتا ہوں، آپ کاغذات اپنے پاس رکھ لو، میرے مرنے کے بعد کوٹھی کا قبضہ لے لینا” بیٹے نے انکار کر دیا،
اس کا کہنا تھا “ابا جی آپ کو یہ گھر ابھی خالی کرنا ہوگا” فلمساز کی صورتحال پر محمد علی اور نعیم بخاری دونوں کو ترس آ گیا، محمد علی نے فلمساز کے صاحبزادے کو پیش کش کی، زیبا بیگم کے پاس ڈیڑھ کروڑ کے زیورات ہیں، آپ یہ زیورات اپنے پاس رکھ لیں لیکن فلمساز کو اس گھر میں رہنے دیں، آپ کو جب یہ گھر مل جائے گا تو آپ میرے زیورات مجھے واپس کر دینا
مگرصاحبزادہ نہ مانا، یہ معاملہ طول پکڑ گیا تو صاحبزادے نے بریف کیس سے پستول نکال لیا اور والد پر تان دیا، والد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، وہ اٹھ کر اندر گئے، چیک بک لے کر آئے، ساٹھ ستر لاکھ روپے کا چیک کاٹا، یہ چیک صاحبزادے کے حوالے کیا اور آنکھیں نیچے کر کے بولے، آپ یہ رقم لو اور مجھے اس کے بعد کبھی اپنی شکل نہ دکھانا،
اس نے وہ چیک جیب میں ڈالا اور نعیم بخاری کے ساتھ واپس چلا گیا، وہ فلمساز 1983ء میں انتقال کر گئے، انتقال کے وقت ان کا کوئی اپنا وہاں موجودنہیں تھا، نعیم بخاری صاحب کے بقول “یہ منظر دیکھنے کے بعد میرے دل میں پوری زندگی کے لیے دولت کی خواہش ختم ہو گئی۔
دوستو یہ صرف تین واقعات ہیں، آپ اگر چند لمحوں کے لیے آنکھیں کھول کر دائیں بائیں دیکھیں تو آپ کو اپنے اردگرد سیکڑوں ایسی مثالیں ملیں گی، آپ نے بھی درجنوں لوگوں کے عروج کا سورج زوال کے اندھیرے غار میں اترتا دیکھا ہو گا، ہم سے زندگی میں صرف دس چیزیں بے وفائی کرتی ہیں،
ہم اگر ان دس بیوفاؤں کی فہرست بنائیں تو عہدہ دولت اور اولاد پہلے تین نمبر پر آئے گی، ہم عہدے کے لیے ایمان، عزت، سیلف ریسپیکٹ، اخلاقیات، صحت اور خاندان تک قربان کر دیتے ہیں لیکن یہ عہدہ سب سے زیادہ بے وفا نکلتا ہے، میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو عہدے کے لیے دوسروں کے قدموں میں بیٹھے اپنے کرتے کے
دامن سے دوسروں کی رال صاف کرتے، دوسروں کے کتوں کو نہلاتے اور اپنی پگڑی سے صاحب کی گاڑی کا شیشہ صاف کرتے دیکھا لیکن عہدہ اس کے باوجود ان کے نیچے سے نکل گیا، میں نے کرسی پر بیٹھے لوگوں کو فرعون اور نمرود بنتے بھی دیکھا اور “نسلیں ختم کردو” جیسے احکامات جاری کرتے بھی لیکن پھر جب عہدے نے بے وفائی
کی تو میں نے اپنی آنکھوں سے انتہائی طاقتور لوگوں کو بھی عدالتوں کے باہر گندی اینٹوں اور جیل کی کال کوٹھڑیوں میں قید دیکھا، میں نے بے شمار ارب اور کھرب پتی لوگوں کو پیسے پیسے کا محتاج ہوتے بھی دیکھا، آج سے پچاس سال قبل جو گاؤں ہوتے ہوں گے اور ان گاؤں کے چوہدری بھی ہوتے تھے لیکن آج وہ چوہدری، ان کی زمینیں اور ان کے گاؤں کہاں ہیں؟ لاکھوں دولت مند غریب ہو گئے،
مالک ملازم بن گئے اور نمبردار وقت کے سیاہ صفحوں میں جذب ہو گئے چنانچہ پھر دولت سے بڑی بے وفا چیز کیا ہوگی اور رہ گئی اولاد! میں نے بے شمار لوگوں کو اپنی اولاد سے محبت کرتے دیکھا، یہ لوگ پوری زندگی اپنی اولاد کے سکھ کے لیے دکھوں کے بیلنے سے گزرتے رہے لیکن پھر کیا ہوا؟ وہ اولاد زمین جائیداد کے لیے اپنے والدین کے انتقال کا انتظار کرنے لگی،
میں نے اپنے منہ سے بچوں کو یہ کہتے سنا ” اباجی بہت بیمار ہیں، دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی مشکل آسان کر دے” اور یہ وہ باپ تھا جو بچوں کے نوالوں کے لیے اپنا ضمیر تک بیچ آتا تھا، میں نے ایسے مناظر بھی دیکھے، باباجی کے سارے بچے ملک سے باہر چلے گئے۔ بابا جی نے تنہائی کی چادر بُن بُن کر زندگی کے آخری دن گزارے، انتقال ہوا تو
بچوں کو وقت پر سیٹ نہ مل سکی، چنانچہ تدفین کی ذمے داری ایدھی فاؤنڈیشن نے نبھائی یا پھر محلے داروں نے!، یہ ہے کُل زندگی! اولاد، دولت اور عہدے کی بے وفائی ان بے وفائیوں کے داغ اور آخر میں قبر کا اندھیرا۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے ہر شخص واقف ہے لیکن اس کے باوجود انسان کا کمال ہے، یہ دیکھتا ہے لیکن اسے نظر نہیں آتا، یہ سنتا ہے لیکن اسے سنائی نہیں دیتا
اور یہ سمجھتا ہے لیکن اسے سمجھایا نہیں جا سکتا، ہر روز لوگوں کو تباہ ہوتا، مرتا، ذلیل ہوتا دیکھتا ہے مگر یہ ہر بار خود کو یقین دلاتا ہے ” یہ میرے ساتھ نہیں ہوگا” کیوں؟ کیونکہ “میں دوسروں سے مختلف ہوں ۔ دوستو اس تحریر کو لکھنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ شائد کوئی ان سب واقعات سے عبرت حاصل کر لے۔