حکومت کے برے دن شروع۔۔۔
قارئین آج کی اس تحریر میں ہم آپ کو چیف الیکشن کمشنر کے بارے میں بتائیں گے۔ میں اگر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی ایک فقرے میں تشریح کروں تو یہ کہہ دینا کافی ہو گا “حکومت غلط آدمی سے ٹکرا گئی ہے، اس لڑائی میں صرف ایک فریق
کو نقصان ہو گا اور وہ ہو گی حکومت “۔ سکندر سلطان راجہ بھیرہ کے قریب چھوٹے سے گائوں چھانٹ میں پیدا ہوئے، گائوں میں بجلی تھی، سڑک تھی اور نہ ہی سکول، والد آرمی میں میجر تھے، ان کی سینئر افسر سے لڑائی ہو گئی اور وہ پری میچور ریٹائرمنٹ لے کر گائوں آ گئے۔
یہ نو بہن بھائی تھے، سکندر سلطان والدین کی آٹھویں اولاد تھے، یہ چار سال کے تھے، والد کا انتقال ہو گیا، بھیرہ میں ٹاٹ سکول سے پڑھے، آٹھویں جماعت میں تھے، حسن ابدال کیڈٹ کالج کے انگریز پرنسپل نے پنجاب کے ہائی سکولز کو خط لکھ دیا، آپ اپنے
بچے نامزد کریں، ہم ٹیسٹ لیں گے اور اہل بچوں کو کیڈٹ کالج میں داخلہ دیں گے، ہیڈ ماسٹر نے سکندر سلطان کا نام بھجوا دیا، یہ آٹھویں جماعت میں پہلی بار لاہور گئے۔
ٹیسٹ ہوئے، انٹرویو دیا اور یہ پاس ہو کر کیڈٹ کالج پہنچ گئے، ایف ایس سی کی، میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا، ڈاکٹر بنے اور میڈیکل آفیسر بن کر سرگودھا کے ایک گائوں میں پہنچ گئے، سی ایس ایس کی تیاری کی، امتحان دیا اور ڈی ایم جی میں سلیکٹ ہو گئے،
ان کی پہلی پوسٹنگ اسلام آباد میں تھی، یہ اے سی تھے اور سعید مہدی چیف کمشنر، ایک خاتون کے ذریعے سعید مہدی کی صاحب زادی کے ساتھ شادی ہو گئی لیکن مہدی صاحب اور راجہ صاحب کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے، سسر صاحب دھیمے ہیں لیکن داماد سیدھے اور ڈٹ جانے والے ہیں۔
یہ مختلف پوزیشنوں پر کام کرتے ہوئے نومبر2019ء میں سیکرٹری ریلوے کی حیثیت سے ریٹائر ہو گئے، شیخ رشید ان کے فین اور “ویل وشر” ہیں، شیخ رشید نے وزیراعظم سے انہیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا ممبر تعینات کرنے کی سفارش کی لیکن پرنسپل
سیکرٹری اعظم خان نے انکار کر دیا یوں یہ ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور شفٹ ہو گئے، 21جنوری 2020ء کی شام ان کے دوست آغا حسن جان نے انہیں فون کیا اور مبارک باد دی” آپ سی ای سی نامزد ہو گئے ہیں ” سکندر سلطان راجہ نے فوراً پوچھا “یہ سی ای سی کیا ہوتا ہے” یہ اس وقت تک چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔
آغا حسن جان کی بیگم رابعہ جویریہ شیریں مزاری کی سیکرٹری ہیں، خبر شیریں مزاری کے ذریعے نکلی تھی اور یہ بھی پتا چلا تھا ان کا نام وزیراعظم نے تجویز کیا تھا، کیوں کیا تھا؟ یہ راز آج تک نہیں کھل سکا تاہم میں اتنا جانتا ہوں سکندر سلطان راجہ ای وی
ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) کے بہت بڑے حامی تھے اور ان کا خیال تھا یہ چیف الیکشن کمشنر بننے کے بعد دو کام ضرور کریں گے، یہ ووٹنگ کے پراسیس کو مشین پر شفٹ کریں گے اور پاکستان میں کم از کم ایک ایسا الیکشن ضرور کرائیں گے جس پر تمام پارٹیوں کو اعتماد ہو۔
میں سٹوری کی طرف واپس آتا ہوں، وزیراعظم انہیں خود لے کر آئے تھے، عمران خان کے ساتھ ان کی پہلی ملاقات 2013ء میں ہوئی تھی، یہ ڈی جی پاسپورٹ تھے اور عمران خان ایم این اے بننے کے بعد پاسپورٹ بنوانے ان کے دفتر گئے تھے، یہ 2018ء کے بعد
بطور سیکرٹری ریلوے وزیراعظم کے پاس جاتے رہے لیکن وہ ملاقاتیں زیادہ خوش گوار نہیں تھیں، یہ بہرحال چیف الیکشن کمشنر بن گئے اور حکومت سے ان کا پہلا پھڈا لوکل باڈیز الیکشن پر پڑگیا۔
سپریم کورٹ نے بلدیاتی الیکشنکرانے کا حکم دیا تھا، بلدیاتی الیکشن نہ ہوئے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 28 جنوری2021ء کو چیف الیکشن کمشنر کو طلب کر لیا، یہ عدالت میں پیش ہوئے، جج صاحب نے ان سے اور اٹارنی جنرل خالد جاویدسے پوچھا”آپ ادارے سے
بالاتر ہو کر صرف پاکستانی کی حیثیت سے جواب دیں، کیا بلدیاتی اداروں کی معطلی آئینی تھی” دونوں نے جواب سے بچنے کی کوشش کی لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جواب چاہتے تھے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا، یہ غیر آئینی اور غلط تھا، سکندر سلطان راجہ نےاٹارنی جنرل کی تائید کر دی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات کی تاریخ کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دے دی اور وزیراعظم سپریم کورٹ میں اعتراف پر چیف الیکشن کمشنر سے ناراض ہو گئے۔
دوسرا ایشو ڈسکہ کے ضمنی الیکشن نے پیدا کر دیا، یہ مسئلہ آراوز سے شروع ہوا تھا، پارٹی کے چند لوگ حلقے میں اپنی مرضی کے آراوز لگوانا چاہتے تھے، الیکشن کمشنر نے صاف انکار کر دیا، الیکشن کی شام 20 پریذائیڈنگ آفیسرز رزلٹ سمیت غائب ہو گئے، یہ
لوگ سیالکوٹ شہر کے ایک احاطے میں جمع کیے گئے تھے، پارٹی کے ایک اہم عہدیدار سے اس حرکت کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے ہنس کر جواب دیا “ہم چاہتے تھے باقی پولنگ سٹیشنز کے رزلٹ آ جائیں تاکہ جتنی کمی بیشی ہو ہم وہ ان 20 پولنگ سٹیشنز سے پوری کر لیں ” ۔
عثمان ڈار نے بھی الیکشن کمیشن کے ایک سینئر ممبر کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کیا لیکن بہرحال ڈسکہ میں دوبارہ الیکشن بھی ہوا اور الیکشن کمیشن نے تحقیقات کے لیے دو انکوائری کمیٹیاں بھی بنا دیں، الیکشن کمیشن کو 20پریذائیڈنگ آفیسرز کے اغواء کی رپورٹ موصول ہو چکی ہے جب کہ افسروں کے رویے کی رپورٹ تین دن میں آ جائے گی، الیکشن کمیشن یہ دونوں رپورٹس اگلے ہفتے جاری کر دے گا اور یہ رپورٹس حکومت کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیں گی۔
تیسری ناراضگی سینیٹ کے تین مارچ 2021ء کے الیکشن کے دوران پیدا ہوئی، حکومت اوپن بیلٹ کے ذریعے الیکشن کرانا چاہتی تھی، معاملہ سپریم کورٹ میں گیا، پانچ رکنی بینچ بنا اور سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کو بلالیا، حکومت چاہتی تھی
سکندر سلطان راجہ عدالت میں “یہ ہو سکتا ہے” کہہ دیں لیکن انہوں نے ڈٹ کر جواب دیا “آئین کی شق 226 کے تحت یہ غیر آئینی ہو گا”عدالت نے حکومت کے خلاف فیصلہ دے دیا، وزیراعظم ناراض ہو گئے اور انہوں نے اپنی تقریروں میں باقاعدہ اس ناراضگی کا اظہار شروع کر دیا، وزراء نے اسے حکومتی پالیسی سمجھ لیا اور یہ بھی الیکشن کمیشن کے خلاف سرعام بولنے لگے۔
چوتھی ناراضگی الیکٹورل ریفارمز بل تھا، حکومت نے 10 جون 2021ء کو قومی اسمبلی سے الیکٹورل ریفارمز بل پاس کرا لیا، یہ بل جب الیکشن کمیشن پہنچا تو چیف الیکشن کمشنر نے اس پر 28 اعتراضات اٹھا دیے، حکومت نے حلقہ بندیوں اورووٹرز کے تعین
کا اختیار الیکشن کمیشن سے لے کر نادرا کو دے دیا تھا، نادرا براہ راست وزارت داخلہ کے ماتحت ادارہ ہے چناں چہ حکومت نادرا کے ذریعے الیکشن سے پہلے وسیع پیمانے پر دھاندلی کرا سکتی تھی اور یہ غیرآئینی تھا، یہ بل بابر اعوان نے بنایا تھا اور اس میں وسیع پیمانے پر غیرآئینی شقیں تھیں، الیکشن کمیشن کی نشان دہی پر یہ بل سینیٹ میں رک گیا اور حکومت غیرآئینی شقیں واپس لینے پر مجبور ہو گئی۔
پانچویں ناراضگی پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی الیکشن کے ایشو پر پیدا ہوئی، الیکشن کمیشن نے 29 جولائی 2021ء کو انٹراپارٹی الیکشن نہ کرانے پر عمران خان کو نوٹس جاری کر دیا اور حکومت نے اسے جانب داری قرار دے دیا، وزراء نے الیکشن کمیشن پر توپوں
کے دھانے کھول دیے، حکومت نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج بھی کر دیا لیکن پھر حکومتی وکیل شاہ خاور درخواست واپس لینے الیکشن کمیشن پہنچ گئے، ایک ممبر نے وجہ پوچھی تو وکیل نے بتایا، ہم نے پارٹی منشور نہیں پڑھا تھا، منشور کے مطابق ہمارے الیکشن واقعی ڈیو تھے، اس معاملے میں بھی حکومت غلط تھی لیکن وزیراعظم کو الیکشن کمیشن کا نوٹس برا لگا اور چھٹا اور تازہ ترین ایشو الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) ہے۔
سکندر سلطان راجہ ای وی ایم کے حامی ہیں، یہ الیکشن کے عمل کو مشین پر شفٹ کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومتی ای وی ایم میں تین خوف ناک ایشوز ہیں، حکومت دعویٰ کر رہی ہے یہ مشین وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے بنائی جب کہ مشین پرائیویٹ
کمپنی ریپڈیو (Rapidev) نے تیار کی، کمپنی کا ہیڈکوارٹر دوبئی میں ہے تاہم کمپنی نے ایک دفتر نسٹ میں بھی قائم کر رکھا ہے، یہ کمپنی کس کی ہے اور کمپنی کو کس نے اور کیوں مشین بنانے کا ٹاسک دیا؟ یہ راز کوئی نہیں جانتا۔
دوسرا حکومت ایک سیاسی جماعت ہے اور یہ 2023ء کے الیکشنز کی سٹیک ہولڈر بھی ہو گی لہٰذا الیکشن کمیشن حکومت کی پسند کی کسی پرائیویٹ کمپنی کی مشین کو کیوں اجازت دے دے؟ الیکشن کمیشن کا خیال ہے مشین کے بارے میں فیصلہ الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے، حکومتی پارٹی جب اپنی مشین کے ذریعے الیکشن کرائے گی تو اس کی کیا کریڈیبلٹی رہ جائے گی
اور تیسری وجہ الیکشن کمیشن میں انتخابی عمل کو فوری طور پر مشین پر شفٹ کرنے کی کیپسٹی نہیں۔
کمیشن کو تیاری کے لیے وقت چاہیےلیکن حکومت ہر صورت مشین “نافذ” کرانا چاہتی ہے اور الیکشن کمیشن اس کے لیے تیار نہیں، دوسرا وزراء نے 10ستمبر کو سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی اور صدر عارف علوی کے دفتر میں الیکشن کمیشن کے عملے کی خوف ناک بے عزتی کی، الیکشن کمیشن کے ڈی جی آئی ٹی آپریشنز محمدخضر عزیز اور دو ڈائریکٹرز صدر کی دعوت پر ایوان صدر گئے
لیکن وہ روتے ہوئے واپس آئے، ان کا کہنا تھا وزراء ہماری بے عزتی کر رہے تھے اور صدر صاحب ہنس رہے تھے لہٰذا الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا یہ کسی قیمت پر حکومت کا کوئی ناجائز مطالبہ نہیں مانے گا۔
یہ فواد چودھری اور اعظم سواتی کے خلاف قانونی کارروائی بھی کرے گا، ڈسکہ الیکشن کی دونوں رپورٹس بھی سامنے آئیں گی اور فارن فنڈنگ کیس کی رپورٹ بھی اسی مہینے ریلیز ہو جائے گی چناں چہ میں ایک بار پھر کہوں گا حکومت نے غلط آدمی سے پنگا لے لیا ہے، سکندر سلطان راجہ کسی قیمت پر پیچھے نہیں ہٹے گا۔