تقدیربگڑ جائے توکوئی ہنرکام نہیں آتا
حضرت شیخ سعدیؒ بیان کرتےہیں کہ ایران کے ایک شہر اردبیل کا ایک پہلوان فنون سپہ گری میں اس قدر ماہر اور شہ زور تھا کہ لوہے کے بیلچے کو تیر سے چھید دیا کرتا تھا۔
اس پہلوان کے مقابلے میں آنے کی جرات کسی کو نہ تھی۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ایسے شخص نے اُسےمقابلے کی دعوت دی جو نمدہ پہنے ہوئے تھا۔وہ پہلوان اس کے مقابلے میں آگیا اوراپنی مضبوط کمان کو کندھے سے اُتار کر اس پرتیروں کی بارش کردی، اس پہلوان کا ایک بھی تیر اس کے نمدے کو نہ چیر سکا جو اس نے اپنے جسم کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔
جب وہ پہلوان اپنی تمام کوششوں میں ناکام ہوگیا تو نمدہ پوش نے کمند پھینک کر باآسانی پہلوان کوگرفتار کرلیا۔نمدہ پوش اس پہلوان کو گرفتار کرنے کے بعد وہاں سے لے گیا، اور اس کے ہاتھ پیر مضبوطی سے باندھ کر اسے خیمے میں اپنے سامنے ڈال دیا۔ وہ پہلوان اپنی اس شکست اور شرمندگی پر ساری رات روتا رہا۔
صبح ہوئی تو ایکغلام خیمے میں آیا اور اسے دیکھ کر بولا کہ تم تو وہی نامی گرامی پہلوان ہو نا، جو تیر مار کر لوہے کے بیلچے کوچھیددیتا تھا۔ اگر تم وہی پہلوان ہوتو تمہاری یہ حالت کیسے ہوگئی۔ اس پہلوان نے ایک سرد آہ بھی اور کہا کہ تقدیر بگڑنے پر کوئی ہنر کام نہیں آتا اور یہ سب تقدیر کا کیا دھرا ہے۔جب میرا ستارہ عروج پر تھا تو میراکوئی وار خالی نہ جاتا تھا، اور اب جب تقدیر نے ساتھ نہیں دیا تو میں یہاں قید ہوں۔
حضرت شیخ سعدیؒ اس حکایات میں بیان کرتے ہیں کہ انسان کی کسی شے میں مہارت اس کی ہوشیاری اور عقل مندی کی دلیل نہیں بلکہ یہ تقدیر کا لکھا ہے۔ جب تقدیر میں لکھا ہو کہ یہ فلاں شے کا مالک بنے گا، تو بغیر کسی ہوشیاری اور عقل مندی کے وہ اس کا مالک بن جاتا ہے، اور جب تقدیر میں لکھا ہوکہ فلاں شے اس سے لے لی جائے گی تو پھر کوئی ہوشیاری اورعقل مندی کام نہیں آتی۔
رزق کی تقسیم اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہ لوح محفوظ پر لکھ چکا ہے کہ کسی شخص کو کتنا رزق ملنا ہے، پس اگر کوئی امیر ہے تو وہ اس کو اپنی ہوشیاری نہ جانے اور اگر کوئی غریب ہے تو وہ یہ غم نہ کرے کہ شاید اس میں وہ ہوشیاری نہیں جو ایک امیر شخص میں ہے۔