ایک دشمن نے عقب سے حملہ کردیا مگر
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دشمنوں کے نرغے میں بہادری سے لڑرہے تھے ،ایک دشمن نے عقب سے حملہ کرنا چاہا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنبھل کر دفاعی وار کیا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وار سے دشمن کی ت ل و ا ر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور وہ نہتا ہو گیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فورا ہاتھ روک لیا ۔
دشمن دلیر تھا بھاگا نہیں ، بلکہ کہنے لگا ؟ مجھے ت ل و ا ر دو میں اب بھی لڑنے کے لئے تیار ہو ں ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فورا اپنی ت ل و ا ر اس کے حوالے کر دی اور خود غیر مسلح ہوگئے ، دشمن ہکا بکا رہ گیا ۔ اور مشکل سے سوال کیا؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ت ل و ا ر مجھے دی اور خود غیر مسلح کیوں ہوگئے
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا اور کیا کرتا :آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا، کہ کسی نے مجھ سے مانگا ہو اور میں نے دینے سے انکار کیا ہو۔دشمن نے کہا کہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جرات اور شرافت کے سامنے اپنا سرجھکاتا ہوں یہ تھے
میرے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے مانگنے والے کو کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹا یا اللہ پاک ہمیں بھی دوسروں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔کفار مکہ خاندان بنو ہاشم کے انتقام اورلڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ق ت ل کرنے کی ہمت تو نہ کر سکے مگر طرح طرح کی تکالیف اور ایذا رسانیوں سے آپ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے۔
ہرکوچہء بازار میں پراپیگنڈا شروع کردیا کفار مشرقین نے آپ پر اور اسلام قبول کرنے والے مسلمانو ں پر اتنے مظالم ڈھائے کہ جن کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے کفار ومشرقین کا اس بات پر مُصّر تھے کہ مسلمانوں کو اتنا تنگ کرو کہ وہ اسلام کو چھوڑ کر پھر شرک و کفر میں مبتلا ہو جائیں اس لئے ق ت ل کرنے کے بجائے ہر طرح کے ظلم وستم سزاؤں اور ایزا رسانیوں اور جاںسوز عذابوں کے ساتھ ستاتے تھے
مگر خدا کی قسم! محبوب خدا نے انہیں شراب توحید کے وہ جام پلا رکھے تھے کہ ان فرزندان توحید نے استقلال، استقامت کا وہ منظر پیش کردیا کہ پہاڑوں کی چوٹیا ں سر اٹھا کر حیرت سے ان بلا کشان اسلام کے جذبہ، قوت ایمانی کے ساتھ استقامت کا نظارہ کرتی رہیں بے رحم، سنگدل، درندہ صفت کافروں نے ان غریب، بے
کس مسلمانوں پر جبرو کراہ ظلم وستم کا کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑا مگر ایک بھی مسلمان کے پائے استقلال میں تزلزل نہیں آیا۔اعلان نبوت کے ساتویں سال کفار مکہ نے جب دیکھا کہ اسلام روز بروز پھیلتا جارہا ہے تو غیض و غضب میں آپے سے باہر ہوگئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے ساتھ مکمل سوشل بائیکاٹ کردیا گیا
اور قریش نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کے خلاف ایک معاہدہ پر دستخط کیے کہ جب تک یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارے حوالے نہیں کرتے اُس وقت تک ان سے ہر قسم کا مقاطعہ کیا جائے اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاندان اورچچا ابو طالب کے ساتھ شعب ابی طالب میں تین سال محصور رہے۔
تین سال کا زمانہ اتنا سخت اور کٹھن تھا کہ سنگدل اور ظالم کفار نے ہر طرف پہرہ بٹھا دیا تھا کہ کہیں سے بھی گھاٹی کے اندر کھانے پینے کا سامان جانے نہ پائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورخاندان بنو ہاشم ان ہوش ربا مصائب کو جھیلتے رہے معاہدہ کی دستاویز ات کو دیمک نے کھالیا حضرت ابو طالب نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ میرا بھتیجا کہتا ہے۔
معاہدہ کی دستاویزات کو دیمک کھا گئی ھے جہاں خدا کا نام لکھا ہوا تھا وہ حصہ بچ گیا ہے۔ یہ سن کر معطم بن عدی کعبہ کے اندر گیا اور دستا ویز اتار لایا واقعی بجز اللہ کے نام کے ساری دستاویز کیڑوں نے کھالی تھی اس کے بعد یہ محاصرہ ختم ہوا منصور بن عکرمہ جس نے یہ دستاویز لکھ تھی اس پر ق ہ ر الہی ٹوٹ پڑا اس کا ہاتھ شل ہوکر ناکارہ ہو گیا۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین