ہم یہ نہیں افورڈ کر سکتے بچے کو یہ ضرور کہیں… اگر اپنے بچے کو کامیاب اور امیر دیکھنا چاہتے ہیں تو اس سے یہ 5 کام ضرور کروائيں
والدین کی ذمہ داری بچوں کی اعلیٰ اور معیاری تربیت کرنا ہوتا ہے جو والدین بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھتے ہیں وہی والدین اپنے بچوں کو کامیاب ہوتا دیکھتے ہیں۔ یہ خواہش تو ہر والدین کی ہوتی ہے کہ ان کا بچہ اس دنیا میں بڑے ہو کر عزت دولت اور شہرت کمائے مگر اس کے لیے ان کو کیا کرنا چاہیے اس بارے میں ہم آپ کو آج بتائيں گے-
عام طور پر والدین کا یہ سوچنا ہوتا ہے کہ بچوں کے ساتھ آمدنی اور اخراجات کی بات کرنا قبل از وقت ہے مگر ماہرین معاشیات کے مطابق اگر آپ بچے کو مستقبل میں کامیاب دیکھنے کے خواہشمند ہیں تو اس کی تربیت آپ کو ان کی ابتدائی عمر ہی میں کرنی پڑے گی- اس وجہ سے ان کو اسی وقت میں یہ بتانا ضروری ہے کہ پیسہ کیسے کمایا جا سکتا ہے- اس کے علاوہ ان کو یہ ضرور بتایا جائے کہ شاپنگ کے دوران اچھی اور سستی اشیا کی خریداری کیسے ممکن ہے اور کس طرح پیسہ بچایا جا سکتا ہے۔
سات سے نو سال کی عمر ایسی ہوتی ہے جب کہ بچے کو اس وقت تک پیسوں کی شناخت ہو جانی چاہیے اس وجہ سے بچے کو اس عمر میں ضروری اشیا کی خریداری کے لیے تنہا بھیجیں تاکہ وہ نہ صرف پیسے دے کر بقایا رقم واپس لینے کے قابل ہو سکے بلکہ اس کا حساب بھی کر سکے- اس کے ساتھ ساتھ اس کے اندر اس بات کا اعتماد بھی پیدا ہو سکے کہ کم پیسوں میں اچھی خریداری کیسے کی جا سکتی ہے-
منوپلی اور ایسے دوسرے گیم جس میں بچے کو خریداری کرنی ہوتی ہے بچے کو سکھانے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کے ذریعے بچہ نہ صرف اپنے پاس موجود پیسے گن کر ان کے فائدہ مند استعمال کے طریقے سیکھ سکتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پیسے کی کمی کی صورت میں صورت حال کو ایڈجسٹ کرنے کا سبق بھی سیکھ سکتا ہے جو کہ اس کی تربیت کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے-
بچت کی عادت ہر انسان کے لیے ضروری ہے مگر اس عادت کو جلا بخشنے کے لیے تربیت ابتدائی عمر ہی میں ضروری ہے- اس وجہ سے بچے کے لیے گھر میں ایک سے زيادہ گولک بنائیں جس میں سے ہر ایک کو علیحدہ نام دیں۔ مثلا ایک گولک چـھٹیوں میں پکنک کے نام پر ہو ایک کھلونے کے لیے اور ایک غریب کی مدد کے لیے اور بچے کو اس بات کی عادت ڈالیں کہ وہ ان تینوں میں پیسے جمع کرے- اس سے اس کو ساری عمر اس بات کی عادت ہو سکے گی کہ وہ اپنے بجٹ کو اور بچت کو تین حصوں میں تقیسم کر کے اس میں پیسے جمع کر سکے گا اور بوقت ضرورت ان کا استعمال کر سکے گا-
بچے کی ہر خواہش پوری کرنا ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے مگر بچے کو سبق دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی ہر خواہش پوری نہ کی جائے- کیونکہ اگر زندگی میں کبھی کچھ ادھورا رہنے کی عادت نہ ڈالی گئی تو بچے کے اندر اس چیز کی قدر کم ہو جاتی ہے- اس وجہ سے اگر آپ افورڈ کر بھی سکیں تو بچے کی ہر تین میں سے ایک خواہش کو یہ کہہ کر رد کر دیا کریں کہ آپ ابھی افورڈ نہیں کر سکتے جب پیسے ہوں گے تب لے لیں گے- اس سے بچے کو انکار سننے کی عادت اور اس کو سہنے کی عادت ہو سکتی ہے جو بعد میں عملی زندگی میں مدد دیتی ہے-