یہ تحریر تمام مسلمان ضرور پڑے
مولوی مصطفٰےمصری ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ:ترجمہ:”٭ دلی میں جمنامیں سیلاب آیا جس سے قریب کے قبرستان کی کچھ قبریں اکھڑ گئیں ایک قبر کھلی تو کچھ لوگوں نے دیکھا کہ مردہ پڑا ہوا ہے اور اس کی پیشانی پر ایک چھوٹا سا کیڑا ہے وہ جب ڈنگ مارتا ہے تو پوری لاش لرز جاتی ہے تھرا جاتی ہے اور ا س کا رنگ بدل جاتا ہے تھوڑی دیر بعد جب وہ لاش اپنی اصلی کیفیت پرا ٓجاتی ہے تو وہ پھر ڈنگ مارتا ہے لاش کی پھر وہی کیفیت ہوجاتی ہے ۔ سب دیکھ رہے ہیں اور حیران ہیں ۔٭ایک دھوبی تھا ، جمناکے گھاٹ پرآیا تھا
اس سے دیکھا نہیں گیا ۔ اس نے ایک کنکری اس کو ماری تو وہ کیڑا اچھلا اور ا س دھوبی کی پیشانی پر آکر ڈنگ مارا اور پھر وہیں جا کر بیٹھ گیا وہ دھوبی چلانے لگا اور تڑپنے لگا اس سے کسی نے پوچھا تجھے کیا ہوا ۔ تو اس نے کہا کہ سنو! مجھے ایسی تکلیف ہے کہ مجھے نہ صرف ایک بچھو اور ایک سانپ نے کاٹا ہے اور نہ صرف آگ کا کوئی شعلہ میرے بدن پر رکھ دیا گیا ہے بلکہ مجھے ایسی تکلیف ہے کہ میرے بدن کے ایک ایک عضو میں بلکہ ایک ایک رونگٹے اور بال میںگویا ہزاروں لاکھوں بچھو اور آگ کی چنگاریاں بھر دی گئی ہوں ۔ چنانچہ وہ تین دن تک یوں ہی تڑپتا رہا پھر انتقال کر گیا تو مولوی مصطفٰے صاحب فرماتے تھے کہ میں سمجھ گیا کہ یہ اس دنیا کا کیڑا نہیں بلکہ برزخ کے عذاب کی شکل ہے۔میں نے سوچا کہ صاحبِ قبر کے لئے دوسرا علاج ہے قریب جاکر ہمت کرکے بیٹھا اور کچھ سورتیں ”یٰسین شریف اور قل ہو اﷲ احد“ وغیرہ پڑھنا شروع کیں ، جب میں نے قرآن کریم کی تلاوت شروع کی تو وہ کیڑا چھوٹا ہونا شروع ہوا اور ہوتے ہوتے ذرا سا ہو کر ختم ہوگیا ، جب ختم ہوگیا تو ہم لوگ بہت خوش ہوئے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو عذاب سے نجات دی اس کا کفن برابر کرکے قبر بند کر دی گئی” ۔اب اس سے گناہوں کی سزا کا اندازہ لگایئے ، معلوم نہیں اس سے کون سا جرم ہوا ہوگا خدا کے غضب کی کون سی شکل اس میں ہو ، کچھ نہیں کہہ سکتے ۔اﷲ پاک سب کو فکر آخرت نصیب فرمائیں اور عذاب قبر سے محفوظ رکھیں ۔ آمیناللہ تعالیٰ ہماری لغزشیں معاف کرکے عذاب قبر سے بچائے آمین!”اللھم انی اعوذ بک من عذاب القبر””اے اللہ ! میں قبر کے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں۔”حضرت علی رضی اللہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا
کہ جو شخص روزآنہ سو مرتبہ لا الہ الا اللہ الملک الحق المبین پڑھے ( تو یہ کلمات ) اس کیلئے قبر کی وحشت وتنہائی میں اُنسیت کا باعث ہو نگیں۔ہم نے کہیں پڑھا یا سُنا ہے کہ اگر کوئی مسلمان فوت ہوجائے اور کوئی شخص یہ کہے کہ مرحوم جنتی تھا چاہے وہ جنتی نہ ہو تو اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ تو مجھ سے زیادہ سخی ہے اور اللہ رب العزت اس شخص کے جنتی کہنے کی وجہ سے مرحوم کو جنت میں بھیج دیتے ہیں۔اس لئے کوئی فوت ہوتو ضرور اسکے جنتی ہونے کا کہنا چاہیئے کیونکہ پتا نہیں کوئی ہمارے متعلق بھی اس طرح کہہ دے اور ہم جنتی نہ ہوتے ہوئے بھی جنت میں پہنچ جائیں۔
آپ نےسوچا کہ،يہ” برزخ” کا تصور کيا ہے جس ميں مرنے والوں کو قيامت تک رہنا ہو گا ، جب کہ قرآن مجيد يہ بتاتا ہے کہ مرنے والے زمين ہي ميں جائيں گے اور قيامت کے دن زمين ہي سے نکليں گے ، جيسا کہ قرآن مجيد کي درج ذيل آيت سے ظاہر ہے۔ ارشاد باري ہے:منها خلقناکم وفيها نعيدکم ومنها نخرجکم تارة اخري (طه20: 55)”اسي سے ہم نے تم کو پيدا کيا ہے اور اسي ميں تم کو لوٹائيں گے، اور اسي سے تم کو دوبارہ نکاليں گے”۔اور برزخ سے عالم برزخ کيسے بن گيا اور عالم برزخ سے قبر کيسے بن گئي؟ اور يہ کہ برزخ ميں انسان زندہ ہو گا مگر يہ زندگي جسم کے بغير ہو گي ، اس بات کي دليل قرآن ميں کہاں ہے؟درج بالا آيت ميں جو کچھ بيان کيا گيا ہے يہ عين حق ہے۔ يقينا انسان اسي زمين سے پيدا کيا گيا ہے ، وہ مر کر اسي زمين ميں لوٹتا ہے اور قيامت کے دن وہ اسي زمين سے نکالا جائے گا۔
ليکن آپ يہ فرمائيے کہ درج ذيل آيات کا کيا مطلب ہے ، يہ بظاہر اس سے ٹکراتي ہوئي محسوس ہوتي ہيں۔ شہدا کے بارے ميں فرمايا:ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتًا بل احياء عند ربهم يرزقونه فرحين بما آتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم الا خوف عليهم ولا هم يحزنون(آل عمران3: 169 ، 170)”اور جو لوگ اللہ کي راہ ميں قتل ہوئے ہيں ان کو مردہ خيال نہ کرو ، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہيں ، انھيں روزي مل رہي ہے ، وہ فرحاں و شاداں ہيں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل ميں سے ان کو دے رکھا ہے ، اور وہ ان لوگوں کے باب ميں بشارت حاصل کر رہے ہيں ، جو ان کے اخلاف ميں سے اب تک ان سے نہيں ملے کہ ان پر نہ کوئي خوف ہو گا اور نہ وہ غمگين ہوں گے”۔
وحاق بآل فرعون سوء العذاب النار يعرضون عليها غدوًا وعشيًا ويوم تقوم الساعة ادخلوا آل فرعون اشد العذاب (المؤمن40: 45 ، 46)”اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھير ليا ، آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پيش کيے جاتے ہيں ، اور جس دن قيامت قائم ہو گي ، حکم ہو گا کہ فرعون والوں کو بدترين عذاب ميں داخل کرو۔يعني قيامت سے پہلے اس وقت وہ صبح و شام آگ پر پيش کيے جا رہے ہيں۔”وممن حولکم من الاعراب منافقون ومن اهل المدينة مردوا علي النفاق لا تعلمهم نحن نعلمهم سنعذبهم مرتين ثم يردون الي عذابٍ عظيمٍ (التوبہ)”تم ان (منافقوں) کو نہيں جانتے ، ہم انھيں جانتے ہيں۔
ہم انھيں دو مرتبہ عذاب ديں گے۔ پھر يہ عذاب عظيم کي طرف لوٹا ديے جائيں گے”۔يعني ايک مرتبہ دنيا ميں عذاب ، دوسري مرتبہ عالم برزخ ميں اور پھر اس کے بعد جہنم کا عذاب عظيم۔ چنانچہ ان دونوں آيات سے يہ پتا چلتا ہے کہ کم از کم رسولوں کے مخاطبين کے ساتھ اس عذاب و ثواب کا معاملہ ضرور پيش آتا ہے ، يعني وہ عالم برزخ ميں بھي عذاب ميں گرفتار ہوتے يا نعمتيں پاتے ہيں ، جيسا کہ شہدا کا معاملہ ہے۔ عالم برزخ کيا چيز ہے؟ ارشاد باري ہے!حتي اذا جاء احدهم الموت قال رب ارجعون لعلي اعمل صالحًا فيما ترکت کلا انها کلمة هو قائلها ومن وراءهم برزخ الي يوم يبعثون فاذا نفخ في الصور فلا انساب بينهم يومئذ ولا يتساءلون فمن ثقلت موازينه فاولئك هم المفلحون ومن خفت موازين فاولئك الذين خسروا انفسهم في جهنم خالدون (المؤمنون23: 99- 103)”جب ان ميں سے کسي کي موت سر پر آن کھڑي ہو گي تو وہ کہے گا: اے ميرے رب ، مجھے پھر واپس بھيج کہ جو کچھ ميں دنيا ميں چھوڑ آيا ہوں ، اس ميں کچھ نيکي کما لوں ، ہرگز نہيں ، يہ محض ايک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے
اور اب ان سب مرنے والوں کے آگے اس دن تک کے ليے ايک پردہ ہو گا ، جس دن يہ اٹھائے جائيں گے۔ چنانچہ جب صور پھونکا جائے گا ، تو اس دن نہ آپس کا نسب کام آۓ گا اور نہ وہ ايک دوسرے سے مدد کے طالب ہوں گے۔ پس جن کے پلے بھاري ہوں گے ، وہي لوگ فلاح پانے والے ہوں گے اور جن کے پلے ہلکے ہوں گے تو وہي ہيں جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے ميں ڈالا ، وہ ہميشہ جہنم ميں رہيں گے”۔قارئین! ديکھ ليجيے کہ درج بالا آيات ميں بہت وضاحت سے يہ بيان کيا گيا ہے کہ موت کے بعد قيامت کا دن آنے تک لوگ برزخ ميں رہيں گے ، (جہاں شہدا اللہ سے نعمتيں پائيں گے اور فرعون والوں پر آگ کا عذاب پيش کيا جاتا ہو گا ، وغيرہ) پھر جب قيامت آئے گي تو صور پھونکا جائے گا ، پھر اعمال کا وزن ہو گا اور اس کے بعد لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق جنت يا جہنم ميں جائيں گے۔
چنانچہ قرآن سے يہ صاف ظاہر ہے کہ انسان جب مر کر زمين ميں چلا جاتا ہے ، تو وہاں موت کي اس حالت ميں بھي اس کو کوئي ايسے مراحل پيش آتے ہيں جن کي ہميں يہ خبر دي گئي ہے۔ يہ قرآن کا صريح بيان ہے اور ہميں اس کے انکار کي کيا ضرورت ہے۔ برزخ کا لفظ تو قرآن ميں آيا ہے۔”حتي اذا جاء احدهم الموت قال رب ارجعون لعلي اعمل صالحًا فيما ترکت کلا انها کلمة هو قائلها ومن وراءهم برزخ الي يوم يبعثون فاذا نفخ في الصور فلا انساب بينهم يومئذ ولا يتساءلون (المؤمنون23: 99 101″”جب ان ميں سے کسي کي موت سر پر آن کھڑي ہو گي تو وہ کہے گا: اے ميرے رب ، مجھے پھر واپس بھيج کہ جو کچھ ميں دنيا ميں چھوڑ آيا ہوں ، اس ميں کچھ نيکي کما لوں ، ہرگز نہيں ، يہ محض ايک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور اب ان سب مرنے والوں کے آگے اس دن تک کے ليے ايک پردہ ہو گا ، جس دن يہ اٹھائے جائيں گے۔ چنانچہ جب صور پھونکا جائے گا ، تو اس دن نہ آپس کا نسب کام آئے گا اور نہ وہ ايک دوسرے سے مدد کے طالب ہوں گے۔
“يہ آيات بتاتي ہيں کہ مرنے والے جب مر جاتے ہيں تو پھر قيامت واقع ہونے تک کے ليے ان کے آگے ايک پردہ ہوتا ہے ، جس کي بنا پر دنيا ميں واپس نہيں آ سکتے۔ چنانچہ تب يہ لوگ کہاں ہوتے ہيں ، ظاہر ہے کہ اسي پردے کے پيچھے ہوتے ہيں جو ان کے آگے ہوتا ہے۔ قرآن کا يہ اسلوب واضح طور پر بتا رہا ہے کہ ان کا کوئي وجود ہے جس کے آگے کوئي پردہ ہوتا ہے اور جو وجود اس پردے کے پيچھے ہوتا ہے۔ اسي ما ورائے برزخ کو جہاں يہ وجود موجود ہوتے ہيں، عالم برزخ کہا جاتا ہے۔ يہ سارا کچھ تو قرآن کا بيان ہے جس سے ايک برزخ کا تصور ہمارے سامنے آتا ہے۔ جن مردوں کے بارے ميں قرآن يہ بات کرتا ہے ، يہ وہي مردے ہيں جنھيں ہم زمين ميں قبر بنا کر دفنا ديتے ہيں۔ انسان جس وجود کو قبر ميں رکھتا ہے قرآن اسي کو برزخ کے پيچھے قرار دے رہا ہے۔
اس سے نتيجہ يہ نکلتا ہے کہ صاحب قبر کا برزخ سے کوئي تعلق ہوتا ہے جبھي تو خدا نے اسے برزخ کے پيچھے قرار ديا ہے۔ قبر اپنے ظاہر ميں ہمارے مشاہدے کي چيز ہے ، يہ ہمارے ليے متشابھات ميں سے نہيں ہے ، جب کہ برزخ کا لفظ من جملہ متشابھات ہے۔ متشابھات وہ چيزيں ہوتي ہيں جن کي حقيت سے اس دنيا ميں رہتے ہوئے ہم واقف ہو ہي نہيں سکتے۔ چنانچہ ايسي چيزوں کے حوالے سے ہمارے اوپر يہ لازم ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ پر ايمان رکھيں اور اس وقت کا انتظار کريں جب اللہ تعالي ہمارے پر يہ چيزيں کھول دے گا۔ بہرحال ، اس بحث سے اتني بات واضح ہو جاتي ہے کہ برزخ کے ساتھ قبر کا کوئي تعلق ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے پاس دو ہي لفظ ہيں: ايک زندگي اور دوسرا موت۔ دنيا ميں انسان زندہ ہوتا ہے اور آخرت ميں بھي وہ اسي طرح زندہ ہو گا ، قرآن و حديث سے يہ بات ثابت ہے۔
دنيا اور آخرت کا درمياني عرصہ جس ميں انسان مردہ ہوتا ہے ، اس عرصے کے بارے ميں قرآن نے ہميں يہ خبر دي ہے کہ اس ميں شہدا تو اپنے رب کے پاس ہوتے ہيں اور وہاں انھيں روزي دي جاتي ہے اور” آل فرعون” کے حوالے سے بتايا کہ وہ اسي عرصے کے دوران ميں صبح و شام آگ پر پيش کيے جا رہے ہيں ، جيسا کہ درج ذيل آيات اس پر دلالت کرتي ہيں۔”اور جو لوگ اللہ کي راہ ميں قتل ہوئے ہيں ان کو مردہ خيال نہ کرو ، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہيں ، انھيں روزي مل رہي ہے ، وہ فرحاں و شاداں ہيں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل ميں سے ان کو دے رکھا ہے ، اور وہ ان لوگوں کے باب ميں بشارت حاصل کر رہے ہيں ، جو ان کے اخلاف ميں سے اب تک ان سے نہيں ملے کہ ان پر نہ کوئي خوف ہو گا اور نہ وہ غمگين ہوں گے۔
(آل عمران3: 169 ، 170″”اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھير ليا ، آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پيش کيے جاتے ہيں ، اور جس دن قيامت قائم ہو گي ، حکم ہو گا فرعون والوں کو بدترين عذاب ميں داخل کرو۔ (المؤمن40: 45 ، 46″اب بتائيے قرآن کي بتائي ہوئي اس خبر کا کيا کريں؟ جو بات سمجھ آتي ہے وہ يہ ہے کہ قرآن کي بيان کردہ سب باتيں سچي ہيں۔ چنانچہ يہ درمياني عرصہ جس ميں انسان مردہ ہوتا ہے اس ميں اس کے ساتھ کوئي معاملہ ضرور پيش آتا ہے ، ليکن مردے کي وہ حالت ہماري
دنيوي زندگي سے کچھ ايسي مختلف ہوتي ہے کہ ہم اس کا کوئي شعور ہي نہيں رکھتے ، يہ وہي بات ہے جو قرآن مجيد نے شہدا کے حوالے سے ہميں بتائي ہے ، لہذا ، ہم مردے پر گزرنے والے احوال کو کماحقہ سمجھنے سے قاصر ہيں۔ اگر ہم يہ مان ليں کہ مرنے کے بعد قيامت سے پہلے تک کي حالت کوئي ايسي حالت ہو سکتي جس کا ہميں شعور نہ ہو تو پھر يہ بھي ہو سکتا ہے کہ موت کے زندگي کي ضد ہونے کي حقيقت بھي ہمارے شعور سے بالا ہو۔اللہ تمام مسلمانوں کو عذاب قبر سے بچائے۔آمین یا رب صلی وسلم!!