آج ہم ہیں، کل آپ بھی ہوسکتے ہیں ۔۔ کراچی میں نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کے احتجاج کے دوران خاتون کو ہارٹ اٹیک، سب افسردہ ہو گئے
پاکستان میں عوام کا مقام کیا ہے اس کا اندازہ نسلہ ٹاور کے مکینوں سے لگایا جا سکتا ہے، یہ مکین کوئی امیر زادے نہیں ہیں، اور نہ ہی ان کے باپ کی جائیداد ہیں۔ ان کا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے نسلہ ٹاور کے فلیٹس خرید لیے۔ لیکن یہ فلیٹس بھی ان شہریوں کو اس وقت مکمل دستاویزات دکھا کر دیے گئے تھے۔ اس میں ان مکینوں کا کیا قصور؟
ہم ہمیشہ ہی مظلوموں کی آواز بنی ہے۔ اس وقت نسلہ ٹاور کے مکینوں پر ٹوٹنے والی قیامت اس حد تک بڑی ہے کہ ان کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ اچانک سے ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی کو ایک ہی لمحہ میں گرا دینے کا حکم مل جانا اور پھر ان شہریوں کو ان کا حق بھی نہیں ملنا یہ کہاں کا انصاف ہے۔
کیا ہم کسی افسوسناک واقعہ کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیونکہ نسلہ ٹاور کے مکینوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ انہیں اس عمر میں وہ ذہنی اذیت دی جا رہی ہے، جو کسی افسوسناک واقعہ سے دوچار کر دے گی۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں نسلہ ٹاور کی رہائشی خاتون اپنی فیملی کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہی تھی، پریس
کانفرنس کے دوران خاتون کو دل کا دورہ پڑا اور وہ زمین پر گر گئیں۔ خاتون احتجاج میں موجود تھیں اور دوران احتجاج گفتگو کر رہی تھیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر آج آپ نے ساتھ نہیں دیا تو کل آپ کی باری ہوگی۔ اسی دوران خاتون اچانک زمین پر گر گئیں۔ خاتون کو طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔
کیا یہ ریاست مدینہ ہے؟ کیا اس طرح اب اذٰیت میں مبتلا کیا جائے گا؟ نسلہ ٹاور کو بننے دیا گیا اس وقت نہیں روکا گیا جس وقت اس کی تعمیر کی جا رہی تھی، کیا یہ رہائشیوں کی غلطی ہے؟ سندھ حکومت اور کراچی کے تعمیراتی عمارتوں کے اداروں کی ملی بھگت سامنے آئی۔ کیا یہ ان مظلوم مکینوں کی غلطی ہے؟ کیا انہیں ان کا حق دیا جائے گا؟ کیا اس طرح عدل و انصاف کیا جائے گا؟ افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ وہ تمام انسانیت کے علم بردار کسی افسوسناک واقعہ کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ تمام سیاسی جماعتیں میڈیا کی توجہ کا انتظار کر رہی ہیں۔ سوائے جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کوئی دوسرا رہنما داد رسی کے لیے نہ آیا۔
قبر میں سکون کا راگ الاپنے والے، ریاست مدینہ کا خاب دکھانے والے کیا اس طرح ماؤں بہنوں کو روڈوں پر زلیل کرائیں گے