ماں میکے گئیں تو واپس نہ آسکیں۔۔ جانیں تقسیمِ ہند کے وقت بچھڑے دو بھائی 80 سال بعد کیسے ملے؟
“ماں پاکستان بننے سے دو دن پہلے میکے گئیں تھیں چھوٹا بھائی صرف دو سال کا تھا اسی دوران پاکستان بننے کا اعلان ہوگیا۔ کئی دنوں تک ماں کا انتظار کیا لیکن وہ واپس نہیں آئیں“
یہ کہانی ہے ایسے دو بھائیوں کی جنھوں نے تقسیم ہندوستان کے وقت ایک دوسرے کو کھو دیا تھا۔ چھوٹا بھائی حبیب جو صرف دو سال کا تھا اپنی ماں کے ساتھ ننھیال گیا ہی تھا کہ پاکستان اور بھارت کی سرحدیں علیحدہ ہوگئیں۔ جبکہ بڑے بھائی صدیق نے ماں اور چھوٹے بھائی کا سالوں انتظار کیا اور آخر کار 74 سالوں بعد انھیں اپنا بھائی واپس مل گیا ہے۔ صدیق اب 80 سال کے ہوچکے ہیں۔ بھائی کا دوسرے بھائی سے ملنے کا یہ منظر تمام آنکھیں اشکبار کرگیا۔
والدہ کا انتقال ہوچکا ہے
محمد صدیق کا کہنا ہے کہ “انسان زندہ ہو تو مل ہی جاتا ہے“ جبکہ حبیب کا کہنا ہے کہ “یہ راہداری ہمارے لئے ملاب کی راہداری ثابت ہوئی ہے“ بھارت میں رہنے والے حبیب نے شادی نہیں کی جبکہ بڑے بھائی صدیق چھ بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ حبیب کا کہنا ہے کہ دونوں کی والدہ کا انتقال 1962 میں ہوچکا ہے۔
کرتار پور راہداری بچھڑے ہوؤں کو ملانے کا زریعہ بن گئی
واضح رہے کہ لاہور میں موجود کرتارپور راہداری سے جہاں سکھ یاتریوں کو پاکستان میں سکھوں کے مقدس مقامات کی زیارت کی سہولت میسر آئی ہے وہیں یہ راہداری دہائیوں پہلے بچھڑنے والوں کو ملوانے کے لئے بھی شہرت حاصل کرتی جارہی ہے۔ اس سے پہلے بھی تقسیم ہند کے وقت بچھڑنے والے کئی لوگ اس راہداری کے توسط سے ایک دوسرے سے مل چکے ہیں۔