عزت نفس
ایک دن میں راولپنڈی کے ایک ریسٹورنٹ میں کهانا کهانے گیا۔ وہاں دو ٹیبل چھوڑ کے ایک اُدھیڑ عمر بوڑھے میاں اور اُن کی بوڑھی بیگم بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اِسی دوران ایک نہایت ہی ڈیسنٹ اور خوش شکل بھائی صاحب ہوٹل میں داخل ہوئے اور واش بیسن پر ہاتھ دھو کر کچھ فاصلے پر اُن کے برابر والی ٹیبل پر بیٹھ گئے۔
چونکہ ہم نے اپنے کھانے کا آرڈر پہلے ہی دے دیا تھا تو اِس لیے ہم کهانے کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک اُس صاحب کے موبائل فون کی بیل بجی جس کے بعد وہ قدرے اونچی آواز میں موبائل پر کسی سے بات کرنے لگے، اُن کے بات کرنے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اُن کو اللہ نے کوئی بہت بڑی خوشی سے نوازا تھا۔
اور پھر موبائل پر بات ختم کرنے کے بعد وہ وہاں پر موجود سب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے بلند آواز میں بولے، “خواتین و حضرات! آج میں بہت خوش ہوں کہ اللہ نے مجھے بیٹا عطا کیا ہے اور اِس خوشی میں، میں آپ سب کو مٹن کڑھائی کھلاؤں گا۔۔۔!” میں اپنی جگہ سے اٹها اور آگے جا کر انہیں مبارک باد دی اور کہا کہ “بھائی! ہم نے تو اپنے کھانے کا آرڈر پہلے ہی دے دیا ہے، یہ سنتے ہی اُنہوں نے کہا “اچها، چلو کوئی بات نہیں اِس خوشی میں آپکے کھانے کا بل میں ادا کروں گا۔۔۔!” اور پھر انہوں نے وہاں پر موجود باقی سب لوگوں بشمول اُن بوڑھے میاں جی اور اُن کی بوڑھیا کیلئے مٹن کڑھائی کا آرڈر کیا اور سب کا بل ادا کر کے اپنا کھانا کھا کے خوشی خوشی چلے گئے۔
چند دنوں کے بعد میں اپنے دوستوں کے ہمراه ایک سینما گیا تو کیا دیکھا کہ وہی صاحب وہاں پر ایک پانچ سال کے بچے کے ہمراہ ٹکٹ کے لیے لائن میں کھڑے تھے، میں اپنے دوستوں سے نظر بچا کر اُن کے پاس پہنچا، جونہی انہوں نے مجھے دیکھا، دیکھتے ہی مجھے پہچان گئے اور مسکرانے لگے۔
بہرحال سلام دعا کے بعد میں نے طنزیہ کہا کہ “ماشا الله! آپکا بیٹا تو چند ہی دنوں میں اتنا بڑا ہو گیا ہے۔۔۔!”
میری بات سن کر انہوں نے کہا، “بھائی! چھوڑو اِس بات کو، یہ بڑی عجیب کہانی ہے، پھر کسی دن ملو گے تو بتاؤں گا۔۔!”
جب اںہوں نے یہ کہا تو میرا تجسس اور بھی بڑھ گیا اور میں نے اصرار کیا کہ “وه مجهے یہ عجیب کہانی ابھی بتائیں۔۔!”، آخر میرے بہت اصرار پر انہوں نے جو بات بتائی اُس کے بعد میں اپنے آپ کو بہت چھوٹا سمجھنے لگا اور ان کا مقام میری نظروں میں قدرے بلند ہوگیا۔۔۔!!
دوستو! انہوں نے بتایا کہ “اس دن جب میں ریسٹورنٹ میں داخل تو ہاتھ دھونے کیلئے واش بیسن کی طرف گیا، اور وہاں ہاتھ دھوتے وقت میں نے اُن بوڑهے میاں اور بڑھی اماں جی کی باتیں سن لی تھیں، بڑھی اماں کہہ رہی تھی “آج میرا مٹن کڑهائی کھانے کو دل کر رہا ہے۔۔!”، تو اُس پر بوڑھے میاں نے بہت افسردہ لہجے میں کہا کہ “میرے پاس پورے مہینے کے لئے صرف دو ہزار روپے ہیں، اگر کڑهائی کهائیں گے تو پورے مہینے گزارہ کیسے ہوگا۔۔؟، ایسا کرتے ہیں آج دال روٹی کھا لیتے ہیں، کڑھائی پھر کسی دن کھا لیں گے۔۔!”
اُن صاحب نے کہا کہ “اسی وجہ سے میں نے اپنے موبائل کی خود ہی بیل بجا کر وہ بیٹے کی پیدائش کا ڈرامہ کیا تھا، تاکہ میں اپنی فرضی خوشی کے بہانے اُن کی دلی “خاموش خدمت” کر سکوں۔۔!”
میں نے کہا “تو بھائی! آپ صرف انہی بزرگوں کے پیسے دے دیتے، آپ نے خوامخواہ باقی سب لوگوں کو کھانا بھی کھلایا اور اُن کا بل بھی ادا کیا۔۔؟”
تو انہوں نے جواب دیا “ایسا کر کے میں ان بزرگوں کی عزتِ نفس مجروح نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔!”