بھوکی لڑکی۔۔۔۔؟؟
اس کی خوبصورتی کا پورے محلے چرچاتھا جب کبھی بھی خوبصورت بچیوں کا تذکر ہ ہوتا تو رضی بھائی کی بیٹی زیبا کا نام سرفہرست آتا کچھ لڑکے زیبا کو ملکہ حسن بھی بولتے تھے صرف اتنا ہی نہیں زیبا بلکہ حسن تھی بلکہ وہ ملکہ کردار بھی تھی ۔ صرف گیارہ برس کی تھی زیبا جب اس کی ماں کاسایہ اس کے سر سے اٹھ گیا ۔ رضی میاں سائیکل سے کریانہ کا مال دکانداروں کو سپلائی کاکام کرتے تھے مگر جب سے بیوی نے دنیا کو لبیک کیا تو اس نے چھوٹی سی بیٹھک میں کریانہ کی دکا ن کھو ل لی۔ جب بیوی تھی تو کوئی فکر نہ تھی گھر کس وقت آنا ہے۔ مگر اب بیٹی کا ساتھ ہے ۔ آج کے دور میں جس کے گھر بیٹی ہو اور وہ بھی بغیر ماں تو باپ کو بہت سوچ سمجھ کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔
رفتہ رفتہ بیٹی 18 سا ل پار کرچکی ہے۔ زیبا نے ایک ماں کا کردار ادا کیا جیسے ایک ماں اپنے گھر کا خیال رکھتی ہے۔ رضی کو اپنی بیٹی پر فخرتھا۔ انہیں اپنی بیٹی کو دیکھ کر خود پر بہت رشک ہوتا تھا رضی بھائی کی یہی تمنا تھی کہ کوئی مناسب رشتہ مل جائے تاکہ اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کردے۔ ذکر کس سے کریں آجکل کردار کو کم دولت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ رضی بھائی نے کچھ پیسے جوڑ رکھے تھے مگر بیوی کی بیماری میں ایک ایک پیسہ ختم ہوگیا تھوڑا قرض بھی ہوگیا تھا جو انہوں نے رفتہ رفتہ سب چکا دیا ۔ ایک دن ان کے پڑوس میں سے ارشد بھائی ان کے پاس آئے سلام دعا ہوئی اور پھر ذکر چھیڑ ا بیٹی کے ہاتھ پیلے کب کر رہے ہو۔ رضی بھائی نے ایک لمبی سانس لی اور ارشد بھائی کی طرف دیکھا۔ اور بولے کون باپ ایساہے جو اپنی بیٹی کو رخصت کرنا نہیں چاہتا ۔ مگر بھائی دینے کے لیے کچھ ہوتو صیحح۔ رضی کی بات سن کر ارشد بھائی بولے دنیا میں ہر طرح کے لوگ ہیں آپ کی بیٹی میں وہ ساری خوبیا ں ہیں جو ایک لڑ کی میں ہونے چاہیں ۔
ایک لڑکا ہے میر ی نظروں میں بہت نیک ہے نماز روزے کا پابند ہے۔ مگر پیسہ والا نہیں ہے۔ کرائے کا آٹو چلا تا ہے۔ والدین کا انتقال ہوچکا ہے۔ ایک چھوٹا سامکان ہے۔ مگر اتنا کمالیتا ہے آپ کی بیٹی کو وہ سب کچھ دے گا۔ جو کہ بیوی کا حق ہوتاہے۔ اگر تم کہو تو میں بات کروں۔ میری پوری گارنٹی ہے اس کے اچھے کردا ر کی رضی بھائی نے کچھ دیر نہ لگائی اور ہاں کہہ دیا۔ دیکھتے دیکھتے بیٹی کی رخصتی ہوگئی وقت گزرتا گیا اور پانچ برس گز ر گئے زیبا کو ان پانچ سالوں کا پتہ بھی نہ چلاکیسے گزر گئے ۔ زیبا نے بھی بیو ی کا فرض ادا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔
اب وہ دو بچوں کی ماں بھی بن چکی تھی۔ ایک بیٹا تین سال کا بیٹی ایک سا ل کی۔ مگر آج بھی زیبا اتنی خوبصورت لگتی تھی کوئی اتنا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ زیبا نے سوچا کہ بچوں کی پیدائش پر کچھ غریب بچوں کو کھانا کھلائے گی۔ اس نے اپنے شوہر کے سامنے اپنی خواہش رکھی تو شوہر نے ہاں کرنے میں لمحہ نہیں لگایا بلکہ اسے اچھا لگا ۔ اس کے شوہر نے ایک دن پہلے گھر کے پیچھے جھگی میں رہنے والے بے حد غریب لوگوں کی گنتی کرکے حساب لگالیا کتنا کھانا بننا چاہیے اور اگلے دن خود زیبا نے کھانا بنایا اور شام کو اس کا شوہر خود جھگیوں میں جاکر تقسیم کر کے آیا۔ اسکے بعد کچھ کھانا بچ گیا زیبا کے شوہر نے کہا یہاں سے کچھ کلومیٹر کی دوری پر فلائی اوور کے نیچے رات میں کچھ غریب لوگ رات بسر کرتے ہیں میں آٹو سے جا کر یہ کھانے کی تھیلیوں کو انہیں دے آتا ہوں۔ مگر زیبا کا شوہر واپس نہیں آتا اسی طرح ایک گھنٹے سے زیادہ ہوجاتا ہے
مگر زیبا کا شوہر واپس نہیں آتا اتنے میں دو پولیس والے زیبا کو دروازہ کھٹکھٹا تے ہیں زیبا باہر آتی ہے پو لیس والی پوچھتے ہیں زیبا آپ کا نام ہے ہاں میرا نام ہے کیا وہ آٹو چلاتے ہیں جی ہاں ۔ مگر یہ سب کچھ کیوں پوچھ رہے ہیں۔ ان کے آٹو کی ٹرک سے ٹکر ہوگئی وہ ہسپتا ل میں ہے اس وقت زیبا کے گھر میں ایک پڑوسن بھی تھی زیبا اپنے بچوں کو سونپ کر ہسپتال پہنچتی ہے۔ اپنے شوہر کو دیکھ کر اس کے ہوش اڑجاتے ہیں۔ اور پوچھتی ہے یہ سب کیسے ہوگیا ۔ زیبا جو ہونا تھا ہوگیا بچوں کا خیا ل رکھنا انہیں کسی چیز کی کمی محسوس مت ہونے دینا اس سے پہلے زیبا کچھ کہہ پاتی اس کے شوہر کی گردن ایک طرف جھگ گئی ۔ وہ ڈاکٹر کے پاس گئی تو ڈاکٹر نے اس کی نبض کی جانچ کرتا ہے
اور سر نیچے کرتے ہوئے بولتا ہے یہ اب نہیں رہے ۔ زیبا کی تو دنیا ہی الٹ جاتی ہے۔ کچھ گھنٹوں بعد جب زیبا کے والد کو فون پر اپنے داماد کی م وت کا معلوم ہوا تو انہیں بہت صدمہ لگاانہوں نے کہا بیٹی میں تجھے لینے آرہا ہوں۔ مگر زیبا نے منع کردیا اور کہا آپ وہاں بھی اکیلے رہتے ہیں۔ رضی بھائی نے اتفاق کرتے ہوئے مکان خالی کرکے اپنی بیٹی کے گھر ی سوچ کر منتقل ہوگئے اور نواسوں کی کفالت کرنے لگے۔ جو تھوڑے پیسے تھے سب اکٹھے کرلیے تھے ۔ ابھی رضی بھائی نے کام شروع ہی کیا تھا کہ اچانک ان کے سینے میں درد اٹھا زیبا جب تک انہیں پڑوسیوں کی مدد سے ہسپتال لے جاتے انہوں نے گھر میں ہی دم تو ڑ دیا زیبا پر گویا غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ جو گھرمیں پیسہ تھا وہ خرچ ہوتا گیا مزدوری کرے تو کیسے کرے ۔
ایک ملنے والی نے اسے رائے دی آدھا کلومیٹر دور ایک بہت بڑی عمارت بن رہی ہے وہیں میں بھی کا م کرتی ہوں۔ ٹھیکیدار بہت نیک انسان ہے اگر تم تیار ہوتو میں کل بات کر لوں گی۔ پرسوں کام پر لگ جانا۔ زیبا تیا ر ہوگئی تیا ر ہونا بھی تھا بچوں کو جو پالنا تھا اور مکان کا کرایہ بھی دینا تھا۔ مگر ایک دن چکر کھا کر گرپڑی اس کا جسم بخار سے تپ رہا تھا ۔ ٹھیکے دار سے بات کرکے اس کو گھر لے آئے۔ آٹھ دس دن گھر پر ہی گز ر جاتے ہیں بڑی مشکل سے وہ کام پر جاتی ہے۔ اتفاق سے اس دن ٹھیکیدار کا مالک آجاتا ہے۔ اس کی نظر زیبا پڑ جاتی ہے۔
اورمعلوم ہوا کہ یہ ایک بیوہ ہے دو بچوں کی ماں ہے ٹھیکیدار سے کہتا ہے اگر یہ کھانا بنانا جانتی ہے میرے گھر پر آجایا کرے ہم صرف تین لوگ ہیں۔ ہم اسے تنخواہ کے ساتھ ساتھ کھانا بھی کھلا دیا کریں گے۔ ٹھیکیدار کہتا ہے مگر تم صاف ستھر ا لباس پہننا مالکن کو گندگی بالکل پسند نہیں زیبا کو لگتا ہے ا ب وہ اپنے بچوں کی پرورش اچھی طرح کرسکے گی۔ ا ب اس کے دن سکون سے گزرنے لگے ۔ ایک روز جب باورچی خانے میں کام کررہی تھی تب ہی مالکن آکر کہتی ہے کہ میں کسی کام سے باہر جارہی ہوں ۔ صاحب کو بولنا میں شام تک آؤں گی۔ وہ دوپہر کے کھانے پر میرے منتظر نہ ہوں! زیبا اسے بول دیتی ہے۔ تبھی مالکن کا فون آتا ہے ممی کی اچانک طبیعت خراب ہوگئی ہے۔ ممی کے پاس جارہی ہوں۔ کچھ دن بھی لگ سکتے ہیں۔ زیبا اپنے شوہر کی یاد میں کھوئی ہوئی تھی کہ کوئی پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے اور دیکھتی ہے کوئی اور نہیں اس کا مالک ہوتا ہے۔
صاحب جی یہ کیا !! تم بہت خوبصورت ہو اگر تھوڑا سا حسن ہمیں بھی مل جائے تو کیا فرق پڑ جا ئے گا ۔ زیبا نے ایک تمانچہ اس کے گال پر رسید کردیا۔ صاحب ہم غریب ہیں ۔ اور اپنے دونوں بچوں لے کر چلنے لگی۔ اپنے گھر کےلیے کوئی اور نوکرانی ڈھونڈ لینا۔ مالک نے کہا تجھے اس تھپڑ کی قیمت چکانا ہوگی۔ تجھے ایک دن میرے پاس آنا پڑے گا۔ دودن گزر گئے گھر میں جو تھا ختم ہوگیا ۔ لاکھ کوشش کے بعد کچھ انتظام نہ ہوسکا۔ ماں کی ممتا تڑپنے لگی شام آگئ بچوں کی بھوک کی شدت حد سے زیادہ بڑھ گئی کیا کرے کیا نہ کرے سمجھ سے باہر تھا بچے بھو ک سے تڑپ رہے ہیں۔
ماں خود دودن سے خالی پیٹ تھی۔ ٹھیکید ار نے بھی اس کو کام نہیں دیا جہاں پہلے کام کرتی تھی بے بس ولاچار ماں کیا کرے بچے نیم جان ہوچکے تھے ۔مگر کیا کرے آخر بچوں کو بچانا اس ماں کی مجبوری تھی آخر وہ مالک پاس پہنچ گئی کنڈی کھٹکھٹائی ۔ مالک نے دروازہ کھولا اسکے چہرے پر شیطانی ہنسی نظر آرہی تھی مجھے معلوم تھا زیبا میرے بچے تین روز سے بھوکے ہیں۔ ہاں کچن میں سے جو چاہے لے جاؤں زیبا کچن میں جاکر دودھ ڈبل روٹی سب کچھ ایک ٹوکری میں بھر کر جیسے ہی نکلتی ہے مالک ہاتھ پکڑ لیتا ہے ۔ اس کی قیمت اد ا کرنی ہوگی۔ تم جو کہو گے میں کروں گی۔ پر اب مجھے جانے دو۔ مالک نے کہا میں ایڈوانس نہیں دیتا ۔ اتنا کہتے ہی زیبا کا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لے جاتا ہے۔ پھر کیا تھا عورت کی عزت تار تار ہوجاتی ہے۔ کچھ دیر بعد کھانے کی ٹوکر ی زیبا کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولتا ہے۔
جب راشن ختم ہوجائے تو چلی آنا میں مزدوری میں کنجوسی نہیں کرتا اور نہ ہی درازی کرتا ہوں۔ زیبا ٹوکر ی لے کر تیز قدموں سے اپنے بچوں کی طرف جاتی ہے بچوں کو کھانا کھلا ہی رہی تھی کہ پ ولی س آئی اورمالک نے کہا اسی نے میرے گھر میں چوری کی ہے۔ زبیا بیچاری بے بس تھی بولی نہیں میں نے چوری نہیں کی ۔ مالک نے اس کی ٹوکر ی کی طر ف اشارہ کیا ۔ ٹوکری میں دیکھتے ہیں اس میں کچھ روپے بھی ہوتےہیں۔ مالک بولا یہی میرے پیسے ہیں۔
میں نے اس کی پریشانی دیکھتے ہوئے کہا تھا مگر یہ نمک حرام پیسے چرالائی۔پھر پ ول یس والے اس معصو م کو تھانے لے گئےاور اپنی من مانی کےلیے اسے چھوڑ دیا ۔ وہ بے بس اور لاچار اور بھاگی ہوئی اپنے گھر پر آئی بچے روتے روتے تھک کر سو چکے تھے ۔آج وہ رب سے یہی شکوہ کر رہی تھی کب تک غریب عورت بچوں کی خاطر پبلک پروپٹی بنتی رہے گی یا اللہ اولاد دے تو غریبی نہ دے ۔۔ ورنہ انسان ص فت بھ یڑیے عورت کی عزت کو اس طرح ن وچ کرکھاتے رہیں گے ۔ یہ سماج اندھا بھرا ہے۔ ناحق بولتا ہے ناحق سنتا ہے ناحق اسے دکھائی دیتا ہے۔ یہ ستم غریب عورت پرہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ بیواؤں کی عزت چند روٹی کے نوالوں کی خاطر یوں ہی ت ار ت ار ہوتی رہےگی۔ جس طرح زیبا کی ہوئی۔ اور اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ روزے محشر ہم سے بھی سوال کیا جائے گا تم نے ایسے ظلم کیوں ہونے دیا۔۔۔۔