کسی والد کے سینے پر پرچم تھا تو کسی والد کی آنکھوں میں آنسوں ۔۔ کراچی لوٹ مار کے دوران ڈاکوؤں نے ایک اور حافظ قرآن بچے کی جان لے لی

image

کراچی میں ڈکیتی کی وارداتیں جس طرح ہو رہی ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اگلے ہی لمحہ کوئی بندوق دکھا کر آپ کو لوٹ لے۔

ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو اسی حوالے سے بتائیں گے۔

نارتھ کراچی میں ڈکیتی کا ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے جس میں 22 سالہ حافظ اسامہ جان کی بازی ہار گیا، نوجوان زخمون کی تاب نہ لاتے ہوئے عباسی شہید اسپتال میں دم توڑ گیا۔

ذرائع کے مطابق بی بی سی بروسٹ والی گلی میں موٹر سائیکل سوار ڈکیت داخل ہوئے جہاں ملزمان کی جانب سے اصلحہ کے زور پر اسامہ سے واردات کی گئی، اسی دوران اسامہ کی جانب سے مزاحمت کی گئی، ملزمان کی فائرنگ سے اسامہ زخمی ہوا تھا، جسے طبی امداد کے لیے عباسی شہید اسپتال منتقل کیا گیا۔

اسپتال ذرائع کے مطابق اسامہ کے سر اور دائیں ہاتھ میں گولی لگی تھی، حالت تشویشناک تھی تاہم حافظ اسامہ کی جان بچانے کی کوشش کی گئی لیکن حافظ اسامہ بچ نہ سکے، اسامہ 6 بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا، یوں اس طرح بچے کو دیکھ کر والد کی آنکھوں میں آنسوں تھے اور چہرے پر بیٹے کے جانے کا غم۔

کراچی میں ڈکیتی کی وارداتیں جس طرح بڑھ رہی ہیں اس سے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی کی بھی قلعی کھل رہی ہے، صرف سال 2022 کے شروعات میں 30 فیصد سے زائد کا اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

لیکن دوسری جانب چند ایک پولیس اہلکار بھی سندھ پولیس کے نام پر وہ دھبہ بن رہے ہیں جس سے سندھ پولیس پر سے عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔

9 دسمبر 2021 میں ہونے والا واقعہ اب بھی کوئی بھول نہیں ہے جب پولیس اہلکار کی فائرنگ سے جواں سال ارسلان جاں بحق ہو گیا تھا۔

اورنگی ٹاؤن میں پولیس کی جانب سے کاروائی کی گئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ڈکیت اور پولیس کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں ایک ڈکیت کو مار دیا گیا، مگر اصل صورتحال اس وقت واضح ہوئی جب پولیس فائرنگ سے جاں بحق شخص کی شناخت کراچی کے ارسلان کے نام سے ہوئی۔

ارسلان ایک طالب علم تھا اور کم عمر نوجوان لڑکا تھا۔ ارسلان کے والد لیاقت محسود کے والد نے الزام عائد کیا تھا کہ میرا بیٹا کوچنگ سے واپس گھر آ رہا تھا جب اس پر پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کی، ارسلان کو پیٹ میں گولی لگی اور وہ زمین پر گھر گیا تھا جبکہ دوست موٹر سائیکل لیے موقع سے فرار ہو گیا تھا۔

ارسلان کے والد نے سینے پر پرچم لگایا ہوا تھا مگر اس پرچم کو جھکنے نہیں دیا، والد تو والد ہی ہیں نا وہ بیٹے کو دیکھ کر ٹوٹ ضرور گئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں