اپنی طلاق یافتہ بیٹی کی شادی ہو جائے، لیکن بیٹے کے لیے ایسی بہو پسند نہیں ۔۔ پاکستانی معاشرے میں طلاق کو دھبہ کیوں سمجھا جاتا ہے؟
شادی شدہ زندگی خوشگوار رہے۔ یہ دعا والدین تو اپنے بچوں کے لیے کرتے ہیں۔ مگر بعض اوقات آپسی تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے یا پھر گھر والوں کے بگڑتے رویے کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان دوریاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر یہی تلخیاں طلاق کے مقام پر آن پہنچتی ہیں۔ والدین بھی بیٹیوں کی شادی تو کر دیتے ہیں کہ گھرانہ اچھا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن جب بیٹی کی طلاق ہو جاتی ہے یا وہ تکلیف میں ہوتی ہے تو صدمہ برداشت نہیں کر پاتے۔ اس میں کس کی غلطی ہے اور کس فریق کی غلطی نہیں یہ تو حالات پر منحصر کرتا ہے۔ بہرحال ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ بیٹی کی تو دوسری شادی کرنے کے لیے والدین تیار ہو جاتے ہیں، مگر طلاق یافتہ بہو لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
تابش عمر نامی شخص اپنی شادی سے متعلق بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ” میں جس آفس میں کام کرتا تھا، وہاں ایک لڑکی کام کرتی تھی۔ جس کی شادی 20 سال کی عمر میں ہوگئی تھی، لیکن بدقسمتی سے اس کی طلاق ہوگئی۔ طلاق کے بعد حرا کو میں نے کبھی مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا، میں نے فیصلہ کیا کہ اس سے شادی کرلوں گا۔ بظاہر مجھے وہ پسند بھی تھی۔ جب میں نے اپنے گھر والوں سے اپنی پسند کا اظہار کیا تو ان لوگوں نے منع کردیا کہ لڑکی طلاق یافتہ ہے اور معاملہ رفع دفع کردیا۔ میں نے ان سے بہت مرتبہ کہا کہ آپ میری بات مان لیں، لیکن کسی نے نہیں مانی۔ اس واقعہ کے 1 سال بعد میری بہن کی طلاق ہوگئی جس کے 3 بچے تھے۔ جوں ہی بہن کی طلاق ہوئی گھر والے پریشان ہوگئے اور انہوں نے دوسرا رشتہ ڈھونڈا۔ بہن کی تو دوسری شادی ہوگئی، لیکن میرے گھر والوں نے میری شادی کا نہ سوچا۔ ”
تابش مذید کہتے ہیں کہ: ” جب میری بہن کو بچوں سمیت کسی دوسرے شخص نے قبول کیا۔ اس وقت میرے والد اور چچا کو میری بات کی اہمیت کا اندازہ ہوا، لیکن جب تک حرا کی شادی کہیں اور ہو چکی تھی۔ مجھے نیکی کے کام سے روکا گیا، لیکن بہن کی وجہ سے جتنی زحمت ہوئی وہ میرے والدین اور گھر والوں کے سامنے ہے۔ ”ہمارے ہاں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بہو شو پیس کی طرح صاف ستھری اور سجی ہوئی چاہیے، مگر بیٹی کے دامن میں کوئی داغ ہو تو اسے دھو لیا جاتا ہے۔