جرمنی میں 6 سال کی عمر میں بچہ اسکول جانا شروع کرتا ہے… بچوں کو کس عمر میں اسکول میں داخل کروانا چاہیے؟
میں سات سال کی تھی جب میں نے پڑھنا سیکھنا شروع کیا جیسا کہ میرے سکول میں معمول تھا۔ میری بیٹی ایک معیاری انگریزی سکول میں پڑھتی ہے جہاں تعلیم چار سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔
اس عمر میں اپنی بچی کو حروف کو یاد کرتے ہوئے اور الفاظ کو سنتے ہوئے دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہماری تعلیم کا تجربہ کتنا مختلف تھا۔
ہم اس عمر میں درختوں پر چڑھنا اور چھلانگ لگانا سیکھ رہے تھے۔ میں سوچتی ہوں کہ کیا اسے ایک ایسا آغاز مل رہا ہے جو اسے زندگی بھر کام آنے والے فوائد فراہم کرے گا؟ یا کیا اس پر ممکنہ طور پر مناسب مقدار سے زیادہ تناؤ اور دباؤ ہے، اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب اسے اپنی آزادی اور بے فکری کا مزا لینا چاہیے؟
یا پھر کیا میں یوں ہی بہت زیادہ پریشان ہو رہا ہوں، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کس عمر میں پڑھنا لکھنا شروع کرتے ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان اپنی تمام تر شکلوں میں، خواہ وہ لکھنا، بولنا، بلند آواز سے پڑھنا یا گانا ہو ہماری ابتدائی نشوونما میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
بچے اس زبان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو رحم مادر میں سنتے ہیں۔ والدین کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی بلند آواز سے پڑھ کر سنائیں۔
شواہد سے پتا چلتا ہے کہ بچوں سے کتنا کم یا کتنا زیادہ بات کی جاتی ہے اس بات کا اس کی مستقبل کی تعلیمی کامیابیوں پر دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
کتابیں اس بھرپور لسانی تجربات کا خاص طور پر اہم پہلو ہیں، کیونکہ تحریری زبان میں اکثر روزمرہ کی بولی جانے والی زبان سے زیادہ وسیع اور زیادہ باریک اور مفصل الفاظ شامل ہوتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں بچوں کو اپنے اظہار کی حد اور گہرائی میں اضافہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
چونکہ کسی بچے کی زبان کے ابتدائی تجربے کو ان کی بعد کی کامیابی کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے، اس لیے پری سکول میں رسمی تعلیم شروع ہونے سے پہلے ہی بچوں کو خواندگی کی بنیادی مہارتیں سکھانا شروع کر دینا معمول بن گیا ہے۔
جب بچے سکول شروع کرتے ہیں تو پڑھنے پر ہمیشہ بڑی توجہ دی جاتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کا ہدف کہ تمام بچے پڑھنا لکھنا سیکھیں اور زیادہ دباؤ کا باعث بن گیا ہے کیونکہ محققین نے متنبہ کیا ہے کہ وبائی بیماری نے امیر اور غریب خاندانوں کے درمیان کامیابیوں کے فرق کو بڑھا دیا ہے، جس سے تعلیمی عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔
بہت سے ممالک میں رسمی تعلیم چار سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے حق میں اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جلد شروع کرنے سے بچوں کو سیکھنے اور سبقت حاصل کرنے کے لیے زیادہ وقت ملتا ہے۔
تاہم اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ’تعلیمی ہتھیار کی دوڑ‘ شروع ہو جاتی ہے جس کے لیے اپنے بچے کو ابتدائی سبقت دلانے کے لیے چار سال سے بھی کم عمر میں پڑھانا شروع کر دیتے ہیں اور بعض لوگ تو کوچنگ اور پرائیوٹ ٹیوشن بھی دلوانے لگتے ہیں۔
اس کا موازنہ کئی دہائیوں پہلے کی زیادہ کھیل پر مبنی ابتدائی تعلیم سے کریں تو آپ کو پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی نظر آئے گی کہ ہمارے بچے کو زندگی میں دوسروں کے مقابلے میں آگے رہنے کے لیے کس چیز کی ضرورت ہے اس کے متعلق مختلف خیالات رائج ہیں۔
امریکہ میں پالیسی تبدیلیوں کے ساتھ اس میں تیز آئی جیسے کہ سنہ 2001 کے ‘کوئی بچہ پیچھے نہ رہ جائے’ ایکٹ کے تحت تعلیمی کارکردگی اور پیشرفت کی پیمائش کو معیاری بنایا گیا۔
برطانیہ میں بچوں کا امتحان ان کے سکول کے دوسرے سال (عمر 5-6) میں لیا جاتا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ پڑھنے کے متوقع معیار تک پہنچ رہے ہیں کہ نہیں۔
ناقدین خبردار کرتے ہیں کہ ابتدائی درجوں میں اس طرح کے ٹیسٹ سے بچوں کے پڑھنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے، جبکہ کم عمری کے ٹیسٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے ان لوگوں کی شناخت میں مدد ملتی ہے جنھیں اضافی مدد کی ضرورت ہے۔
بہرحال بہت سے مطالعات میں بات سامنے آئی ہے کہ ابتدا میں حد سے زیادہ تعلیمی ماحول سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔
سنہ 2015 کی ایک امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کنڈرگارٹن میں بچوں کو کیا حاصل کرنا چاہیے اس کے بارے میں معاشرے کی توقعات بدل گئی ہیں، جس کی وجہ سے ‘کلاس روم میں نامناسب طریقے’ جیسے کھیل کود پر مبنی سیکھنے کے عمل میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
‘سکولی بنانے’ کا خطرہ
بچے کیسے سیکھتے ہیں اور اس کے لیے ماحول کا معیار بہت اہم ہے۔ برطانیہ میں یونیورسٹی کالج آف لندن میں پرائمری ایجوکیشن کے پروفیسر ڈومینک وائسے کہتے ہیں: ‘چھوٹے بچوں کا پڑھنا سیکھنا پرائمری تعلیم کی سب سے اہم چیزوں میں سے ایک ہے۔ یہ زندگی میں ترقی کرنے والے بچوں کے لیے بنیادی چیز ہے۔’
انھوں نے اپنی ہی یونیورسٹی میں سماجیات کے پروفیسر ایلس بریڈبری کے ساتھ ایک تحقیق شائع کی ہے جس میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جس طرح سے ہم بچوں کو پڑھاتے ہیں وہ واقعی اہمیت رکھتا ہے، یعنی پڑھانے کا طریقہ اہمیت رکھتا ہے۔
سنہ 2022 کی ایک رپورٹ میں وہ بتاتے ہیں کہ انگریزی سکول کے نظام میں صوتیات پر شدید توجہ یعنی کہ کسی لفظ کس طرح لکھا اور پڑھا جائے کچھ بچوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔
بریڈبری کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ‘ابتدائی سالوں کی تعلیم’ کے نتیجے میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ رسمی تعلیم حاصل ہوئی ہے۔ لیکن ابتدائی طور پر حاصل کی گئی تعلیم کی جانچ کا کسی کتاب کو پڑھنے یا اس میں دلچسپی لینے یا دوسرے بامعنی متون کو پڑھنے سے کچھ زیادہ لینا دینا نہیں ہو سکتا ہے۔
مثال کے طور پر، ٹیسٹ میں بچوں سے بے معنی الفاظ کی ‘آواز نکالنے’ اور فضول الفاظ کے ہجے کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں، تاکہ انھیں صرف اندازہ لگانے یا مانوس الفاظ کو پہچاننے سے روکا جا سکے۔ چونکہ فضول الفاظ معنی خیز زبان نہیں ہیں، اس لیے بچوں کے لیے یہ کام مشکل اور پریشان کن ہو سکتا ہے۔
بریڈبری نے پایا کہ سمجھنے کی ان مہارتوں کو حاصل کرنے کے دباؤ، اور پڑھنے کا امتحان پاس کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ تین سال کے بچے پہلے سے ہی صوتیات کا شکار ہو رہے ہیں۔
بریڈبری کا کہنا ہے کہ ‘یہ معنی خیز ہونے پر ہی ختم نہیں ہوتا، یہ سیاق و سباق کو سمجھنے کے بجائے یاد کرنے پر ختم ہوتا ہے۔’ وہ اس بات پر بھی پریشان ہیں کہ استعمال ہونے والی کتابیں خاص طور پر دلکش نہیں ہیں۔
نہ ہی وائسے اور نہ ہی بریڈبری واقعتاً دیر سے سیکھنے کی وکالت کرتے ہیں بلکہ وہ ہمیں بچوں کو پڑھانے یا حروف شناسی کے طریقے پر نظر ثانی کرنے کی بات کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کہانیوں کی کتابوں، نغموں اور نظموں کا استعمال کرتے ہوئے ان کی ترجیہ الفاظ میں دلچسپی اور ان سے واقفیت پیدا کرنے پر ہونی چاہیے۔اس اس کے ساتھ ہی ان کے الفاظ کے زخیرے میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔
اس خیال کی تائید ان مطالعات سے ہوتی ہے جن میں یہ ظاہر ہوا ہے کہ پری سکول کے تعلیمی فوائد بعد میں ختم ہو جاتے ہیں۔ کئی تازہ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ جو بچے پری سکولوں میں شدت کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں ان میں بعد کے درجات میں ان لوگوں کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیمی قابلیت نہیں ہوتی جو اس طرح کے پری اسکولوں میں نہیں جاتے تھے۔
تاہم ابتدائی تعلیم سماجی ترقی پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے – جس کے نتیجے میں سکول اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ جرائم کی کم شرح سے وابستہ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
مختصراً، پری سکول میں جانے سے زندگی میں بعد کی کامیابیوں پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ تعلیمی مہارتوں پر بھی مثبت اثرات ہی مرتب ہوں۔
بہت زیادہ تعلیمی دباؤ بھی طویل مدت میں مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ جنوری سنہ 2022 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جنھوں تعلیم پر زیادہ زور کے ساتھ سرکاری مالی اعانت سے چلنے والے پری اسکول میں شرکت کی، چند سال بعد ان لوگوں کے مقابلے میں کم تعلیمی کامیابیاں دکھائی دیں جنہوں نے ابتدائی درجات میں کوئی مقام حاصل نہیں کیا تھا۔
یہ ابتدائی سالوں میں کھیل پر مبنی سیکھنے کی اہمیت پر تحقیق ہونے والی تحقیق کی تصدیق کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، کھیل کود پر مبنی پلے سکولوں کے نتائج پری ان پری سکولوں سے بہتر ہوتے ہیں جن کی توجہ زیادہ پڑھائی پر ہوتی ہے۔
سنہ 2002 کے ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ ‘بچوں کی بعد میں سکول کی کامیابی میں بچپن میں زیادہ فعال طور پر سیکھنے کے تجربات سے اضافہ ہوا ہے’ اور یہ کہ ضرورت سے زیادہ رسمی سیکھنے کے عمل سے پیشرفت سست روی کا شکار ہو سکتی ہے۔ مطالعہ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ‘بچوں کو بہت جلد دھکیلنا دراصل اس وقت الٹا فائر ہو سکتا ہے جب بچے ابتدائی سکول کے بعد کے گریڈ میں جاتے ہیں۔’
اسی طرح،ایک اور دوسری تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ امریکہ میں پسماندہ بچے جنھیں بغیر کسی ٹیسٹ کے زیادہ کھیل پر مبنی سکول مل جاتا ہے ان میں 23 سال کی عمر میں رویے کے مسائل اور جذباتی خرابیاں کم پائی گئیں بمقابلہ ان بچوں کے جنھیں ‘براہ راست انسٹکرکشن’ والے سکول ملے۔
اس طرح کے پری سکول کے مطالعے ابتدائی خواندگی کے اثرات پر روشنی نہیں ڈالتے ہیں، اور ایک ہی کسی ایک جگہ پر کیے جانے والے چھوٹے مطالعے کو ہمیشہ احتیاط کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے، لیکن ان میں کیسے پڑھائیں والی تجویو اہمیت رکھتی ہیں۔
جو چیز ابتدائی تعلیم بعد کی زندگی میں مثبت سماجی نتائج کا باعث بنتی ہے اس کا پڑھنے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، لیکن بچوں کی دیکھ بھال سے اس کا لینا دینا ضرور ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ والدین بغیر رخنے کے کام کر سکتے ہیں اور گھر کو زیادہ آمدنی فراہم کر سکتے ہیں۔
ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی میں سائیکالوجی کی ایک سینیئر لیکچرر اینا کننگھم جو ابتدائی خواندگی کا مطالعہ کر رہی ہیں وہ یہ دلیل دیتی ہیں کہ اگر کسی جگہ اکیڈمکس پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے، تو اس کی وجہ سے اساتذہ ٹیسٹ اور نتائج کے لیے دباؤ میں ہوں گے اور اس سے بچے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں: ‘یقیناً پانچ سالہ بچے کے نتائج پر فیصلہ کرنا اچھا نہیں ہے۔ والدین کی پریشانی اس بارے میں ہے کہ ان کا بچہ سکول میں کتنا اچھا کر رہا ہے اس میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے: برطانیہ میں ایک تعلیمی خیراتی ادارے کے ذریعہ کیے گئے سروے کے مطابق، اسکول کی کارکردگی والدین کی اولین تشویش میں سے ایک ہوتی ہے۔‘
دیر آید، درست آید یعنی دیر سے تعلیم بہتر نتیجہ؟
ہر کوئی بہت کم عمری میں تعلیم کے آغاز کے حق میں نہیں ہے۔ جرمنی، ایران اور جاپان سمیت بہت سے ممالک میں رسمی تعلیم تقریباً چھ برس کی عمر میں شروع ہوتی ہے۔ فن لینڈ میں، جسے اکثر دنیا کے بہترین تعلیمی نظام والے ملک کے طور پر سراہا جاتا ہے، بچے سات سال کی عمر سے سکول شروع کرتے ہیں۔
اس واضح تاخیر کے باوجود، فن لینڈ کے طلباء 15 سال کی عمر میں برطانیہ اور امریکہ کے طلباء کے مقابلے پڑھنے کی سمجھ میں زیادہ نمبر حاصل کرتے ہیں۔ بچوں پر مبنی اس نقطہ نظر کے مطابق، فن لینڈ کے بازیچۂ اطفال کے سال زیادہ کھیل سے بھرے ہوتے ہیں اور کوئی رسمی تعلیمی سرگرمیاں نہیں ہوتی ہیں۔
اس ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے کیمبرج یونیورسٹی کے سنہ 2009 کے جائزے میں تجویز پیش کی گئی کہ سکول کی رسمی عمر کو چھ سال پر واپس لایا جانا چاہیے، جس سے برطانیہ میں بچوں کو ‘زبان اور مطالعہ کی مہارتوں کو ان کی بعد کی ترقی کے لیے ضروری بنانے کے لیے مزید وقت دیا جا سکے۔’
جبکہ بہت جلدی تعلیم شروع کرنے سے ‘پانچ سال کے بچوں کے اعتماد کو ختم کرنے اور ان کے سیکھنے کو طویل مدتی نقصان پہنچانے کا خطرہ’ ہو سکتا ہے۔
بعد میں تعلیم شروع کرنے کے خیال کو تحقیق سے جلا ملتی ہے۔ امریکہ میں 2006 کے کنڈرگارٹن کے ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان بچوں کے ٹیسٹ سکور میں بہتری آئی ہے جنھوں نے داخلے میں ایک سال کی تاخیر کی۔
ابتدائی بمقابلہ دیر سے پڑھنے والے بچوں کا موازنہ کرنے والی دیگر تحقیقوں میں یہ پایا کہ دیر سے تعلیم شروع کرنے والے بچے جلد تعلیم شروع کرنے والے بچوں کی سطح تک جلد پہنچ جاتے ہیں، – یہاں تک کہ فہم کی صلاحیتوں کے معاملے میں تو وہ پہلے شروع کرنے والے بچوں سے قدرے آگے بھی نکل جاتے ہیں۔
جرمنی کی یونیورسٹی آف ریجنزبرگ کے سرکردہ مصنف سیبیسٹین سوگیٹ وضاحت کرتے ہیں کہ یہ مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دیر سے سیکھنا شروع کرنے والے بچوں کو دنیا کے بارے میں اپنے علم کو سیکھنے والے الفاظ سے زیادہ مؤثر طریقے سے میل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ بہت حد تک قابل فہم ہے۔ زبان کے ذریعے ہی کسی چيز کو سمجھا جا سکتا ہے، اور اس کے لیے انھیں اس کے پیچھے خیالات کو کھولنا ہوتا ہے۔’
‘یقیناً اگر آپ پہلے زبان (سیکھنے) پر توجہ مرکوز کرنے میں زیادہ وقت صرف کرتے ہیں، تو آپ مہارتوں کو حاصل کرنے کی ایک مضبوط بنیاد بنا رہے ہیں جس کی نشوونما میں برسوں لگتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پڑھنا جلدی آ سکتا ہے لیکن زبان (لفظ اور ادراک) پر درک حاصل کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ یہ مشکل کام ہے۔
سوگیٹ کہتے ہیں کہ سکول میں داخلے کی مختلف عمروں کو دیکھتے ہوئے انھوں نے پایا کہ 50 سال کی عمر میں جلد پڑھنے سیکھنے کے دوسرے کاموں میں کوئی قابل فہم فائدے نہیں تھے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جلدی سیکھنے سے پڑھنے کی صلاحیت بہتر نہیں ہوتی تو پڑھائی جلدی کیوں شروع کی جائے؟ پڑھنے کی بھوک اور قابلیت لوگوں میں منفرد ہوتی ہے اور یہ ایک اہم پہلو ہے۔
کننگھم کا کہنا ہے کہ ‘بچے جب سکول شروع کرتے ہیں یا پڑھنا سیکھنا شروع کرتے ہیں تو وہ اپنی بنیادی صلاحیتوں کے لحاظ سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔
اسٹینر سے تعلیم یافتہ بچوں کے بارے میں اپنے مطالعے میں ان کا کہنا ہے کہ بچے 40 ایسے ہیں جو پہلے سے ہی پڑھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اسٹینر میں سات سال کی عمر سے تعلیم شروع ہوتی ہے۔
اس کے بارے میں وہ کہتی ہیں: ‘مجھے لگتا ہے کہ وہ اس کے لیے تیار تھے۔’
انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ بڑے بچے ‘اپنی بنیادی زبان کی مہارت کے لحاظ سے پڑھنے کا عمل سیکھنے کے لیے’ زیادہ تیار ہیں کیونکہ ان کے پاس زبان کو سیکھنے کے تین اضافی سال تھے۔
مطالعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ پڑھنے کی صلاحیت بچے کی عمر سے زیادہ اس کے الفاظ کے ذخائر سے زیادہ گہرا تعلق رکھتی ہے، اور یہ کہ بولی جانے والی زبان کی مہارتیں بعد کی ادبی مہارتوں کا اعلیٰ پیش خیمہ ہیں۔
تاہم ہم جانتے ہیں کہ سکول میں داخل ہونے والے بہت سے بچے اپنی زبان کی مہارت میں پیچھے رہ جاتے ہیں، خاص طور پر پسماندہ پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچے۔
کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ رسمی تعلیم بچوں کو مدد اور مہارتوں تک رسائی کی اجازت دیتی ہے جو دوسرے بہت سے بچے گھر میں غیر رسمی طور پر حاصل کر سکتے ہیں۔
اس خیال کی حمایت برطانیہ کے تعلیمی حکام نے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بولی جانے والی زبان میں پیچھے رہنے والے بچوں کو جلد پڑھنا سکھانا ‘اس [زبان کی صلاحیت] فرق کو ختم کرنے کا واحد مؤثر راستہ ہے۔’
دوسرے اس کے برعکس نقطہ نظر کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو ایسے ماحول میں مشغول کیا جائے جہاں وہ لطف اندوز ہو سکیں اور اپنی زبان کی سمجھ کو ترقی دے سکیں، جو کہ پڑھنے کی کامیابی کی سب سے بڑی ضامن ہے۔
اور ایسا کھیل کود پر مبنی تعلیمی اداروں میں ممکن ہے۔
وائس کا کہنا ہے کہ ‘تعلیم کا کام اس بات کا اندازہ لگانا ہے کہ آپ کے بچے کہاں ہیں اور انھیں ان کے حساب سے مناسب تعلیم دی جا رہی ہے کہ نہیں۔
سنہ 2009 کے کیمبرج کے جائزے میں اس کی بازگشت ملتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ‘اس بات کے شواہد نہیں ہیں کہ ایک بچہ جو اسباق کے ذریعے سیکھنے میں زیادہ وقت صرف کرتا ہے وہ کھیل کے ذریعے سیکھنے والے بچے کے برخلاف طویل مدت میں ‘بہتر’ کرے گا۔’
کننگھم کی بیٹی نے بھی حال ہی میں پڑھنا سیکھنا شروع کیا ہے۔ وہ پڑھنے کی مثالی عمر کے بارے میں متاثر کن نظریہ رکھتی ہیں: ان کا کہنا ہے کہ ‘اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ چار یا پانچ یا چھ سال کی عمر میں پڑھنا شروع کرتے ہیں جب تک کہ سکھانے کا طریقہ اچھا ہے اور اس میں شواہد کا طریقہ کار شامل ہے۔ بچے اتنے لچکدار ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی تناظر میں کھیلنے کے مواقع نکال لیتے ہیں۔’
کم عمر میں خواندگی کے بارے میں ہمارا جنون کچھ حد تک بے بنیاد معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس میں جلد بازی کا کوئی واضح فائدہ نظر نہیں آتا۔
دوسری طرف، اگر آپ کا بچہ جلدی پڑھنا شروع کر رہا ہے، یا اپنے سکول سے پہلے ہی پڑھنے میں آزادانہ دلچسپی ظاہر کرتا ہے، تو یہ بھی ٹھیک ہے، لیکن یہ خیال رہے کہ دباؤ کو کم کرنے اور تفریح کرنے کے کافی مواقع موجود ہوں۔
Partner Content: BBC Urdu