اس بار تو بیٹا ہی ہونا چاہیے، قصور وار کون؟ صرف باپ یا پھر بہو پر زمین تنگ کردینے والی ساس اور نندیں بھی
فہمیدہ خاتون کے چار بیٹے تھے اور انھیں اپنی قسمت پر بڑا ناز تھا۔ وہ خود بھی تین بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں اور ہمیشہ یہ ہی دیکھا کہ گھر میں بیٹوں کا رتبہ اوپر ہوتا ہے کیونکہ وہ خاندان کو آگے بڑھاتے ہیں اور خاندان میں سر بھی اونچا ہوتا ہے۔
بیٹے ہونا تو ہماری سوسائٹی میں خوش قسمتی کی نشانی ہے۔عادتاً وہ زرا سخت مزاج واقع ہوئی تھیں ان کو اس بات کا بڑا زعم تھا کہ ہمارے ہاں پہلی اولاد بیٹا ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنے بڑے بیٹے کی شادی کی جلد ہی ان کے ہاں خوشخبری ہوئی۔
اب فہمیدہ خاتون نے بیٹے کو کہنا شروع کر دیا کہ بس دعا کرو بیٹا ہو خاندان میں سر اونچا رہے ۔ سارم کے خیال میں بھی نسل کو آگے بڑھانے کے لئے بیٹے کا ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ بات بات میں بیوی کو سناتا کہ تمھارا بھی بڑا بھائی ہے تو ہمارے ہاں بھی پہلا بیٹا ہو جائے تو میری ماں خوش ہو جائیں گی۔
سمیعہ کے لئے یہ وقت گزارنا انتہائی دشوار گزار لگ رہا تھا وہ روز بروز کمزور ہوتی جا رہی تھی دن رات عجیب وسوسے اس کو پریشان کر کے رکھتے تھے بیٹا نہ ہوا تو کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔آج اس کا الٹراسائونڈ ہونا تھا ۔وہ صبح سے عجیب بے چینی کا شکار اس نے اللہ تعالیٰ سے بیٹے کے لئے بہت دعائیں کی تھیں لیکن جو اللہ کو منظور وہ ہی ہوا جس کا ڈر ڈاکٹر نے جیسے ہی بتایا کہ بیٹی ہے اس کے تو آنسو تھمنے ہی میں نہیں آ رہے تھے۔اور ڈاکٹر سے وعدہ لیا کہ وہ یہ بات اس کے شوہر کو نہیں بتائے گی۔
سارم کے پوچھنے پر اس نے کہا ڈاکٹر کے مطابق بچے کی پوزیشن ایسی ہوتی ہے کہ واضح نہیں نظر آتا۔ہر ڈاکٹر کے وزٹ پر اسکا یہ ہی بہانہ تھا۔ جیسے جیسے ڈلیوری کا وقت قریب آ رہا تھا اس کے لیے جیسے دنیا تنگ ہوتی جا رہی تھی ۔ایک دفعہ سارم سے اس نے پوچھا کہ اگر لڑکی ہو گئی تو اس کے غصے کی انتہا نہیں- اس کا کہنا تھا ہمارے خاندان میں ایسا کبھی نہیں ہوا تم بد شگونی کی باتیں نہ کرو۔اس کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ ان سب معاملات میں وہ کہاں قصور وار ہے۔ وہ دن رات دعائیں کرتی۔۔۔۔
پھر جیسے کہ اللہ نے اس کی سن لی پتا نہیں اس میں کہاں سے ہمت آ گئی اپنی ماں سے اس نے بات کی کہ وہ ڈلیوری سی پہلے ہی علیحدگی چاہتی تھی کیونکہ وہ اپنی بیٹی کو اس گھٹن زدہ ماحول سے بچانا چاہتی تھی۔ آخر کار اس نے اپنے شوہر کو بتا ہی دیا ۔ساس اور شوہر نے خوب طعنے دیے لیکن اس کو ان طعنوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اس کا بھائی اس کو لینے پہنچ چکا تھا اس نے بغیر کسی ملال کے شوہر کا گھر چھوڑ دیا۔ سمیعہ تو خوش قسمت تھی کہ اس کا میکہ اس کے ساتھ کھڑا تھا ورنہ عموماً لڑکیاں ایسے موقعوں پر اکیلی کھڑی ہوتی ہین انھیں بس صبر کی تلقین کی جاتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سارے معاملات میں قصور وار کون ہے؟ آیا کہ صرف شوہر یا ساس نندیں بھی کیونکہ یہ ساس نندیں ہی ہوتی ہیں جو اپنے بیٹے/بھائی کا گھر نہیں بسنے دینا چاہتیں اور آنے والی کی زندگی کو جہنم بنا دیتی ہیں۔
یہ خواتین اٹھتے بیٹھتے یا تو بہو سے پوتے کی فرمائش کرتی نظر آتی ہیں اور ساتھ ہی کسی دوسرے کی بیٹی کو نفسیاتی دباؤ کا شکار بنا ڈالتی ہیں یا پھر اوپر نیچے پیدا ہونے والی بیٹیوں کی پیدائش کا ذمہ دار بہو کو قرار دیتی رہتی ہیں- جبکہ یہ سب ﷲ کے حکم سے ممکن ہے وہ جسے چاہے بیٹوں سے نوازے یا بیٹیوں سے یا پھر دونوں سے ملا جلا کر-
دوسری جانب گھر میں ساس اور بہنوں کی روز روز کی اس قسم کی باتوں سے شوہر کا دماغ بھی کام کرنا چھوڑ دیتا اور وہ بھی بیٹا پیدا نہ کرنے کی جرم میں بیوی کو مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بناتا رہتا ہے-یہاں تک کہ شوہر بیٹا پیدا نہ کرنے کے جرم میں یا تو بیوی کو طلاق دے ڈالتا ہے یا پھر بیٹیوں سے ناروا سلوک رکھتا ہے-
بظاہر تو صرف شوہر قصور وار دکھتا ہے لیکن اس کے پیچھے سسرال ہوتا ہے جن میں ساس اور نند سر فہرست ہیں اور سزا کے حقدار بھی یہ تینوں رشتے ہیں۔
میانوالی میں اتوار کو ایک شخص نے اپنی سات دن کی بیٹی کو فائرنگ کر کی قتل کر دیا وہ بیٹی کی پیدائش سے خوش نہیں تھا۔ یہ شخص تو پھانسی کا حقدار ہے ہی ساتھ میں اس طرح کے واقعات سے جڑے وہ لوگ بھی سزا کے حقدار ہیں جو ایسے لوگوں کی یہ ذہنیت بنانے میں پیش پیش رہتے ہیں تبھی تو معاشرے سے یہ ظلم اور بربریت کا خاتمہ ہو گا۔
حدیث نبوی ﷺ ہے کہ:جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح قریب ہوں گے۔ (پھر اپنی دو انگلیوں کو ملا کر دکھایا) مسلم شریف