عورت ہو کر اب تک 18 نکاح پڑھا چکی ہوں۔۔ عورت سے نکاح کیوں پڑھوایا؟ ماں نے حیرت انگیز وجہ بتادی
“اپنی بیٹی کی شادی کے حوالے سے میرے کچھ خواب تھے اور میں ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید سے ملی تو ان کی شخصیت سے اتنی متاثر ہوئی کہ اسی وقت ٹھان لیا تھا کہ اپن بیٹی ارسلا کا نکاح ان سے ہی پڑھواؤں گی“
یہ الفاظ ہیں حنا علی کے جن کا تعلق بھارت سے ہے۔ حنا علی نے اپنی بیٹی کا نکاح ایک خاتون قاضی سے پڑھوایا جو کہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں ایسی مثال پہلے نہیں دیکھی گئی۔ آج ہم اس آرٹیکل میں جانیں گے کہ وہ کیا سوچ تھی جس کی وجہ سے حنا اور ان کی بیٹی نے ایک خاتون قاضی کا انتخاب کیا اور خود قاضی صاحبہ نے اس شعبے کا انتخاب کیوں کیا جو عام طور پر مردوں کے لئے مخصوص ہے۔
ہم اسلام کی صحیح ترجمانی کرنا چاہتے ہیں
1943 میں جموں و کشمیر میں جنم لینے والی ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید بھارت کے معروف ماہر تعلیم اور مصنف مرحوم خواجہ غلام السیدین کی بیٹی ہیں۔ وہ بھارت میں منصوبہ بندی کمیشن کی رکن اور حیدرآباد دکن کی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدے پر تعینات رہ چکی ہیں۔ وہ کئی کتابوں کی مصنف ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ اسلام ایک آسان مذہب ہے اور ہم اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے کے لئے برسوں سے کوشش کررہے ہیں۔ نکاح خواں بننے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر سے اس تاثر کو ختم کیا جاسکے کہ اسلام میں عورتوں کو حقوق نہیں دیے گئے۔ ڈاکٹر سیدہ 2008 سے اب تک 18 نکاح پڑھا چکی ہیں۔
اسلام کو خطرہ نہیں
دلہن کی والدہ حنا علی کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کا نکاح ایک عورت نے پڑھایا تو لوگوں نے کہا کہ اسلام خطرے میں ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ اسلام کو خطرہ تنگ نظری سے تھا جو اب کم ہورہا ہے اور جیسے جیسے اس طرح کی روایات آگے بڑھیں گی اسلام خطرے سے باہر آتا جائے گا۔
بھارت کا ادارہ جہاں خواتین کو نکاح خواں بنایا جاتا ہے
بھارت میں دارلعلوم نسواں کے نام سے ایک ادارہ کام کررہا ہے جس میں خواتین کو باقاعدہ نکاح پڑھانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کورس میں امتحان بھی لیا جاتا ہے اور اب تک اس ادارے سے 25 خواتین نکاح خواں بن چکی ہیں۔