لوگ بچے پیدا کرکے بیچتے ہیں اور ہم پیدا ہونے سے پہلے بچوں کو بیچ رہے ہیں ۔۔ فلسطین کے والدین کی داستان جو اُمتِ مسلمہ کے لیے سوالیہ نشان ہے
افغانستان میں جہاں ہر خاص و عام شخص طالبان کی پالیسیوں سے متاثر ہوا ہے وہیں بڑھتی ہوئی غربت سے ان لوگوں نے اپنے بچوں کو بیچ کر پیسے حاصل کیے تاکہ وہ اپنی روزمرہ کی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکیں، کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہ تھا۔ کوئی والدین ایسے نہ ہوں گے جو خؤشی سے اپنے بچوں کو یوں چند روپیوں کے عوض بیچیں۔ لیکن غربت اور افلاس کے ساتھ ملکی حالات نے انہیں اس کام کے لیے مجبور کیا۔
جو حالات افغانستان میں تھے، ان سے کہیں بدتر حالات فلسطین کے ہیں جہاں کوئی سنبھالنے والا نہیں بس اسرائیل کے ہاتھوں وہ لوگ بے موت مارے جا رہے ہیں۔ فلسطین ایک ایسا ملک ہے جہاں زرخیزی بالکل اسی طرح موجود ہے جس طرح پاکستان میں ہے، وہاں بھی کھیت کھلیان موجود ہیں، لوگ کھیتی باڑی کرکے کمائی کرتے ہیں، مگر جس طرح وقت بے وقت بمباری ہوتی ہے اس ماحول میں آگے بڑھنا اور کمانا بہت مشکل کام ہے۔
ان حالات میں یہ لوگ بھی اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہیں، ظاہر ہے جب کاروبار ٹھیک سے نہیں ہوگا، گھروں میں کمائی کا ذریعہ نہ ہوگا تو بنیادی ضروریات کیسے پوری ہوں گی؟ ایسے ملک میں جہاں ہر وقت موت کا کنواں کھلا رہتا ہے، کب، کہاں، کیسے کوئی آ کر مار کر چلا جائے گا کچھ معلوم نہیں، گھر سے نکلا ہوا شخص گھر واپس آ بھی سکے گا اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں تو کیسے زندگی کا گزر بسر ہوگا۔ انٹرنیشنل ادارے اے بی سی نیوز کے مطابق اس وقت فلسطین میں غربت کا سامنا کرنے کے لیے لوگوں کے پاس محض اس کے کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بیچیں۔
عالمی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق فلسطین میں لوگ بچوں کو پیدا ہونے سے قبل بیچنے کی تیاریاں کر لیتے ہیں اور ایک ایسا ڈونر تلاش کرتے ہیں جو ان کے بچوں کو گود لے لے یا کوئی ایسا ادارہ جو بچوں کو پالنے کا کام کرتا ہو۔ اس وقت فلسطین کے یتیم خانوں میں صرف وہ بچے موجود نہیں ہیں جن کے والدین نہیں ہیں، بلکہ ہزاروں کی تعداد میں وہ بچے بھی موجود ہیں جن کےو الدین حیات ہیں مگر وہ حالات سے ڈرتے ہوئے اور غربت کے مارے اپنے بچوں کو خود پیدا ہوتے ہی ان اداروں کے سپرد کر جاتے ہیں۔
القدس نیٹ ورک کے مطابق یتیم خانوں میں اس وقت اتنے بچے موجود ہیں کہ اگر ان کو ہم کسی دوسرے ملک بیچ دیں تو یہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہوگا، مگر یہ یتیم خانے اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ان بچوں کو رکھ سکیں۔ الغزہ ٹی وی کی رپورٹ میں کچھ غریب والدین نے بات کرتے ہوئے کہا کہ: ” وگ بچے پیدا کرکے بیچتے ہیں اور ہم پیدا ہونے سے پہلے بچوں کو بیچ رہے ہیں کیونکہ ہمیں اپنی زندگی کا کچھ معلوم نہیں، ہمارا کوئی بھروسہ نہیں تو اپنے بچوں کی ضمانت کیسے لیں۔ ہمیں کسی ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو ہمارے ملک کو تباہی و بربادی سے بچا سکے۔ اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے دیکھنے سے اچھا ہے کہ ہم انہیں زندگی میں ہی کسی محفوظ مقام پر منتقل کر دیں۔ ”