حکومت سود کے سدباب کیلئے نیک نیتی ثابت کرے مفتی منیب الرحمن بھی معاملے پر بول پڑے
کراچی(این این آئی) تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے صدر مفتی منیب الرحمن نے کہا ہے حکومت سود کے سدباب کے لیے عملی اقدامات کرتے ہوئے اپنی نیک نیتی ثابت کرے۔پیرجاری بیان میں مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ حکومت اور قومی مالیاتی ادارے سود سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل میں جانے کے بجائے روڈ میپ تیار کریں۔
کیا قوم کولہو کے بیل کی طرح ہر بار گھوم پھر کر اسی مقام پرآ کھڑی ہوگی، جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا؟۔انہوں نے کہا کہ 1992 میں امتناعِ ربا کا پہلا فیصلہ آیا، 1999 میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے اس کی توثیق کی اور 2002 میں واپس 1992 کے نقطہ آغاز پر جاپہنچے اور اب 2022 میں ایک بار پھر واضح فیصلہ آیا، لیکن اب پھر اپیل میں جاکر اس فیصلے کو الٹنے کی تیاریاں ہیں۔مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت کی سمت واضح نہیں ہے۔لہذا ربا کے سدِباب کے لیے حکومت اقدامات کرے۔ اپنی نیک نیتی کے ثبوت کے لیے ایک با اختیار ٹاسک فورسیا کمیشن یا اسٹیرنگ کمیٹی تشکیل دے، جو اس سلسلے میں درپیش رکاوٹوں کے ازالے میں حکومت کی مدد کرے اور حکومتی اقدامات پر نظر بھی رکھے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو 5 سال کی مدت دی گئی ہے، لہذا اگر عالمی مالیاتی اداروں اوربین الاقوامی قرض دہندہ اداروں کے ساتھ حکومت کو کچھ قانونی، تکنیکی اور معاہداتی رکاوٹیں ہیں تو انہیں قوم کے سامنے پیش کرے اور قانونِ بین الاقوام کے ماہرین کی مدد سے ان اداروں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ان کا متبادل تلاش کرے۔ نیز جن امور کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے یا فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے انتظامی و استثنائی احکامات کی ضرورت ہے، ان کے اِجرا میں تاخیر نہ کی جائے
۔تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان اس سلسلے میں علمی معاونت کے لیے تیار ہے۔ پس لازم ہے کہ امتناعِ ربا کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے پارلیمنٹ، حکومت،
وفاقی وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان پر دبا ڈالا جائے کہ وہ عملی پیش رفت کریں۔انہوں نے کہاکہ مالیاتی نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا اصل مشن ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور چند دیگراپیل کنندگان کمرشل بینکوں نے بظاہر تو یہ تاثر دیا ہے کہ ہم بعض نکات کی تشریح چاہتے ہیں،
لیکن دراصل یہ اس فیصلے کے نفاذ کو معرضِ التوا میں ڈالنے کا ایک حربہ ہے، کیونکہ یہ کیس سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ میں برسوں لٹکا رہے گا۔
سو اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ اپیل غیر مشروط طور پر واپس لی جائے اورتشریح اور رہنمائی کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اپنے شریعہ بورڈ کو مستحکم کرے اوربا اختیار بنائے.