تمہاری بیوی سے شادی کرنا چاہتا ہے
ریاض میں رہتے ہوئے کافی عرصہ ایسا گزرا جب ہوٹل میں کھانا کھایا کرتا تھا۔ظاہر ہے پکانا آتا نہیں اس لئے ہوٹل پر ہی اکتفا کرنا پڑتا تھا مگر کھانے کی میز پر تنہا بیٹھتے ہوئے ایک نوالہ بھی حلق سے اتارنا گویا زہر کھانے کے برابر لگتا چنانچہ اپنی میز سے اٹھ کر کسی اور میز پر تنہا بیٹھے شخص کے پاس پہنچ جاتا۔اپنے کھانے کا آرڈر دینے کیساتھ کہتا۔یار ہم دونوں مل کر کھانا کھاتے ہیں۔باتیں بھی ہوجائیں گی وقت کٹ جائے گا اور پیٹ بھی بھر جائے گا میرے اس جملے کا جواب عموماً اچھا ہی ملتا تھا۔ایک دن ایک ایسے صاحب سے واسطہ پڑا جو شاید کسی بات پر ناراض تھے۔
میں نے ان کی میز پر جاکر بیٹھتے ہوئے کہا کہ انکل چلیں ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں باتیں بھی کریں گے اور پیٹ بھی بھریں گے۔وہ صاحب بولے کیوں میاں چلوچلو اپنا کھانا منگاؤ اور کھاؤ آجاتے ہیں مفت خورے کہیں کےان کی آواز اتنی بلند تھی کہ پورا ہوٹل سمجھا کہ واقعی میں ان سے مفت کھانا کھلانے کی درخواست کر رہا ہوں میں نے وضاحت کی کہ چاچاکھانا میں اپنے پیسوں سے منگواؤں گا بس آپ کے ساتھ بیٹھوں گا تو وقت کٹ جائے گا۔خیر وہ نہیں مانے اور میں اکثر کی طرح اس دن بھی کھانا کھائے بغیر میز سے اٹھ گیارات کو بسکٹ کھائے اور سو گیا۔دیارِ غیر میں بھوکے سونا کوئی حیرت کی بات نہیں اکثر ہی ایسا ہوتا ہے۔ایسی ہی ایک رات کھانا کھانے نکلا تو میز پر بیٹھے ایک نوجوان سے انہی جملوں کے ساتھ تعارف ہوگیا وہ بہت خوش مزاج اور دل کا بڑا نوجوان تھا۔میں یہاں اس کو نوفل کے نام سے متعارف کراؤنگا نوفل کی عمر یہی کوئی 26,27 سال ہوگی۔
ایک دوسرے کے بارے میں باتیں شروع ہوئیں تو معلوم ہوا کہ نوفل کی شادی 4 سال پہلے ہوئی تھی مگر وہ شادی کے ایک ماہ بعد ہی ریاض آگیا تھا یہاں کے مسائل اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے پھر جا نہ سکا ہم ہر روز ہی رات کو ملاقات کرنے لگے ایک رات کافی دیر سے وہ مجھے سڑک پرملاارے نوفل اس وقت تم کیسے کیا صبح کام پر نہیں جانا؟میں نے اس کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا نہیں مصطفی بھائی بڑی مشکل سے چھٹی لگی ہے ایک دو دن میں ہی گاؤں جارہا ہوں5 سال بعد جاؤں گا اور اب جاکر اپنی بیٹی کو دیکھوں گا نوفل مجھے بتا چکا تھا کہ وہ شادی کے ایک ماہ ہی سعودی عرب آگیا تھا پھر اس کے گھر ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی۔
خیر نوفل ایک دو دن میں گاؤں چلا گیا۔بڑا خوش تھا اس کا چمکتا چہرا آج بھی یاد آتا ہے تو دل تڑپ اٹھتا ہے نوفل کو گئے ہوئے ایک ماہ ہوگیا تھا ایک دن حسب روایت میں ہوٹل میں کھانا کھانے گیا تو نوفل ایک کونے میں میز پر خاموش اور اداس بیٹھا تھا شیو بڑھی ہوئی بال بکھرے ہوئے اور آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ارے نوفل یہ کیا تم کب آئے میں نے میز کے قریب پہنچ کر سوال کیا نوفل میری جانب ایسے دیکھنے لگا جیسے وہ اور میں بالکل اجنبی ہوں۔آج ہی ملاقات ہوئی ہو پھر چند ہی لمحوں کے بعد نوفل نے میرا ہاتھ ایسے تھاما جیسے ہمارا صدیوں کا تعلق ہو وہ میرا سگا ہو یا میں اس کا سب کچھ ہوں میں نے نوفل کے ہاتھ پکڑتے ہوئے سوال کیا کہ کیا ہوا یار تم تو گاؤں گئے تھے کب آئے کیا ہوگیا؟ مگر وہ خاموش تھا۔میں نے کھانا منگوایا بڑی مشکل سے اس نے چند لقمے لئے مگر کچھ نہ بولا ہوٹل بھرا ہوا تھا۔
اس لئے بات کرنا مشکل تھا میں نوفل کو لے کر ریاض میں حارہ کی سڑک پر نکل آیا۔ہم ایک سڑک کے کونے پر موجود چبوترے پر بیٹھ گئے میں نے پھر پوچھا اصرار کیا دھمکی دی کہ اگر مجھے نہیں بتایا تو میں بھی ملنا چھوڑ دوں گا نوفل ایسا لگ رہا تھا جسے گونگا ہوگیا ہو۔آنکھیں سوال کر رہی تھیں مگر زبان گنگ تھی۔میں نے دیکھا کہ وہ فضاؤں اور آسمانوں میں ہے زمین پر تو اسے کچھ نہیں مل رہا کافی دیر ایسے ہی گزر گئی اور پھر میں غصے میں اٹھ کر جانے لگا ٹھیک ہے جب مجھے کچھ نہیں سمجھتے تو چھوڑو میں چلا جاتا ہوں اب نوفل اٹھا اور مجھ سے لپٹ گیا ایسے رونے لگا جسے بچہ بِلک بِلک کر روتا ہے۔نوفل کی ہچکیاں ہی بند نہیں ہو رہی تھیں۔مصطفی بھائی یہ میں نے کیا کر دیا۔میرے ساتھ کیا ہوگیا مصطفی بھائی میں نے تو سوچا بھی نہ تھا نوفل ہوا کیا ہے یار۔بتاؤ تو صحیح خیر ہے ناں؟
مصطفی بھائی میری بیوی نے مجھ سے طلاق لے لی یہ کہہ کر نوفل پھر رونے لگا۔مصطفی بھائی میرا قصور ہے میں نے اس کے ساتھ غلط کیا وہ پڑھی لکھی تھی کوئی دیہاتن نہیں تھی میں نے غلط کیا آپ جانتے ہیں میں شادی کے ایک ماہ بعد ہی سعودی عرب آگیا تھا۔میری بیوی روز کہتی کہ تم واپس آجاؤ۔روکھی سوکھی کھا لیں گے مگر ساتھ رہیں گے۔مگر میں اپنا گھر بنانے کی دھن میں تھا۔بس یار اتنا کمالوں کہ گھر بنالوں۔ماں کہتی تھیں کہ بہنوں کی شادی کےلئے جمع کرلو وقت گزرتا گیا میری بیٹی بھی پیدا ہوگئی۔نوفل نے کہا کہ میرے بچپن کا دوست تھا ارشد۔ہم دونوں ایک ہی محلے میں پلے بڑے تھے۔میرے گھر میں کوئی بھی کام ہوتا میں اپنے دوست ارشد کو فون کر دیتا کہ تیری “بھابھی” یہ کہہ رہی تھی ذرا تو یہ کام کر دے۔یوں اسے میں کسی نہ کسی کام کے لئے اکثر اپنے گھر جانے کا کہتا تھا۔
ارشد روز ہی گھر چلا جاتا تھا امی اور بہنیں بھی اسے جانتی تھیں میں اگر یہاں سے جانے کا کبھی ارادہ کرتا تو امی مجھے “بہنوں” کی شادی اور گھر کے مسائل گنوا دیتیں اور میں پھر رک جاتا۔میری بیٹی اب ماشاءاللہ 4 سال کی ہو گئی ہے۔میں اس مرتبہ آزاد کشمیر میں اپنے گاؤں گیا۔مگر وہاں تو سب کچھ ہی بدل چکا تھا۔میری بیوی میری نہیں رہی۔میری بیٹی مجھے “پاپا” نہیں سمجھتی۔مصطفی بھائی میں تو برباد ہوگیا میں نے حوصلہ دیا کہ پوری بات کرو پھر کیا ہوا؟اس نے کہا میں گھر گیا تو مجھے پہلے ہی دن محسوس ہوگیا کہ میری بیوی میرے آنے سے خوش نہیں میری بیٹی تو مجھے جانتی ہی نہیں تھی۔
اس سے صرف فون پر یا اسکائپ پر ہی بات ہوئی تھی اگلے دن ارشد آیا تو میری بیٹی “پاپا پاپا” کہتے ہوئے اس سے جا لپٹیاسے دیکھ کر میری بیوی کے چہرے پر بھی خوشی نمایاں ہو گئی میں پریشان تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے ایک ہفتہ ایسے ہی گزر گیا۔میں سب کچھ محسوس کرتا رہا پھر میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ آخر یہ “گڑیا” میرے پاس کیوں نہیں آتی وہ “ارشد” کی گود میں چلی جاتی ہے مجھ سے کتراتی ہے؟ بیوی نے کہا آپ کو میں کہتی رہی کہ آپ آجائیں مگر آپ نے “پیسے کمانے” کےلئے میری ایک نہ سنی آج گڑیا ارشد کو ہی اپنا پاپا سمجھتی ہے کیونکہ ہر موقع پر وہی تو موجود رہا۔
اس نے گڑیا کی ہر فرمائش پوری کی نجانے آپ یہ کیوں نہیں سمجھ پائے کہ “پیسہ”ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔آج آپ کا دوست ارشد مکمل طور پر ہمارے گھر میں آچکا ہے اور اسی گھر کا ایک فرد ہوگیا ہے۔تو کیا مطلب میری کوئی اوقات نہیں؟میں نے سوال کیا تو بیوی نے کہا کہ اس میں میرا قصور نہیں آپ شادی کے ایک ماہ بعد ہی چلے گئے تھے۔آج 5 سال بعد آئے ہیں اس عرصے میں ارشد ہی وہ شخص تھا جس نے ہم ماں بیٹی کا ہر طرح خیال رکھا آج ہم دونوں میں “ذہنی ہم آہنگی” ہے۔اور ہم ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔میں یہ سن کر سکتے میں آگیا۔میں نے کہا کہ تم جانتی ہو تم کیا کہہ رہی ہو؟میں نے چیختے ہوئے پوچھا بیوی نے کہا ہاں میں جانتی ہوں مگر میں مجبور ہوں۔
میں اب آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔میرے دل میں اب آپ کے لئے کوئی جگہ نہیں ارشد بھی یہی چاہتے ہیں آپ مجھےچھوڑ دیں تاکہ ہم نئی زندگی شروع کرسکیں۔میں سیدھا ارشد کے پاس گیا اور پوچھا کہ تم نے یہ کیا کیا میرے ہی گھر میں ڈاکہ ڈال دیا؟ارشد نے جواب دیا کہ میں نے کوئی ڈاکہ نہیں ڈالا تم اپنے گھر کی رکھوالی کہاں کر رہے تھےتم تو اپنا گھر میرے حوالے کر گئے تھے اور جو رکھوالی کرتا ہے وہی گھر کا مالک ہوتا ہے۔میں مجرم ہوں مگر مجھ سے بڑے مجرم تم ہو تمہاری بیوی ہر عید پر مہندی لگائے اور گجرا سجائے تمہارا انتظار کرتی تھی۔میں آتا تو تمہاری بیٹی سے کہتا تھا کہ آپ کی مما اچھی لگ رہی ہیں یہ سن کر گڑیا کی ماں بھی خوش ہو جاتی تھی۔یونہی وقت گزرتا گیا اور ہماری سوچوں اور خیالات میں یکسانیت پروان چڑھتی رہی۔نوفل اب تم اپنی بیوی کو چھوڑ دو۔
اس معاملے کو اک خوبصورت موڑ دے کر خیر باد کہہ دو میں تمہاری بیوی سے شادی کرنا چاہتا ہوں تمہاری بچی بھی مجھے اپنا باپ سمجھتی ہے تمہاری بیوی تمہاری رہی اور نہ تمہاری بیٹی تمہیں پہچانتی ہے۔تم کرکٹ کے اُس 12ویں کھلاڑی کی مانند ہو جو ٹیم میں ہوتا ہے مگر کھیل کا حصہ نہیں ہوتا۔ارشد کی باتیں ہتھوڑا بن کر میرے اوپر برس رہی تھیں اس نے کہا مصطفی بھائی نہایت تلخ رہا یہ سفر میرا میری زندگی کی ساتھی کسی اور کی ہم قدم ہوگئی زیادہ افسوس یہ ہے کہ میری ماں اور بہنیں جن کے لئے میں نے اتنے برس تنہا گزار دیئے جن کی وجہ سے میرا گھر برباد ہورہا تھا۔
انہیں کوئی افسوس نہیں تھا انہوں نے میری بیوی پر ان گنت الزامات لگا دیئے مگر میں جانتا تھا کہ یہ قصور اس کا نہیں میرا ہے۔میرے پاس آج بہت دولت ہے مگر میں حقیقی دولت کھو بیٹھا ہوں میں نے ایئرپورٹ سے ہی بیوی کو طلاق نامہ ارسال کر دیا تھا تاکہ وہ”دلہن” جو پانچ سال تک اپنے پہلے شوہر کی راہ تکتی رہی تھی اب اسے مزید انتظار نہ کرنا پڑے اور وہ دوسرے شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار سکےیہ کہہ کر نوفل پھر خاموش ہوگیا۔حارہ کی سڑک پر رات کے 2 بجے سنسناتی گاڑیاں مجھے خوف زدہ کر رہی تھیں۔نوفل کے اندر سے اٹھنے والا شور تنہائی میں مزید اضافہ کررہا تھا میرے پاس نوفل کے لئے کوئی الفاظ نہیں تھے میں اسے گھر جانے کی تلقین کرتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں آگیا اس دن کے بعد نوفل نظر نہیں آیا پھر کئی ماہ بعد ہوٹل سے ہی معلوم ہوا کہ نوفل اب دنیا میں نہیں رہا۔نجانے اس کہانی میں نوفل قصور وار تھا۔اس کی بیوی گنہگار تھی۔یا امی اور بہنوں نے اپنی خواہشات کےلئے ایک گھر برباد کردیا تھا.