امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور موچی
امام ابو حنیفہؒ کے پڑوس میں ایک موچی رہتا تھا، دن بھر کام کرتا اور رات کو گوشت یا مچھلی لا کر بھونتا اور کھا کر شراب کا شغل شروع کردیتا. جب سرور آتا تو نیند آنے تک یہ شعر بلند آواز میں گاتا رہتا:اضا عونی و أی فتی أضاعوا. لیوم کریھۃ و سداد ٹغر(انہوں نے مجھے ضائع کر دیا اور کیسے جوان کو ضائع کیا، جو مصیبت کے دن اور سرحد کی حفاظت میں کام آتا).
امام ابو حنیفہؒ ساری رات نماز پڑھتے تھے، کئی راتوں تک اس کی آواز نہ آئی تو لوگوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا. معلوم ہوا کہ اسے پولیس لے گئی اور وہ جیل میں ہے.امام صاحب فجر کی نماز پڑھ کر اپنے خچر پر گورنر کے پاس پہنچے. امیر کو معلوم ہوا تو اس نے کہا کہ ’’انہیں سوار حالت ہی میں اندر آنے دو اور جب خچر فرش پر آ جائے تب وہ اتریں.‘‘گورنر نے اعزاز کے ساتھ ان کا استقبال کیااور تشریف آوری کا سبب دریافت کیا.
فرمایا کہ میرے ایک پڑوسی کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے، آپ اسے رہا فرما دیں.‘‘گورنر نے کہا نہ صرف وہ بلکہ اس رات سے آج تک جتنے لوگ گرفتار ہوئے ہیں، میں ان سب کی رہائی کا حکم دیتا ہوں.‘‘امام ابو حنیفہؒ اپنے خچر پر واپس ہوئے. موچی پیچھے پیچھے چل رہا تھا. منزل پر پہنچ کر امام صاحب موچی کے پاس گئے اور دریافت کیا ’’کیا ہم نے تمہیں ضائع کر دیا؟
اس نے جواب دیا ’’نہیں، بلکہ حفاظت کی اور پڑوسی کا حق ادا کیا ہے. اللہ آپ کوجزائے خیر دے. اور اسی وقت سے موچی نے توبہ کرکے اپنی زندگی بدل دی.
مفلس و کنگال فقیر ایک فقیر بہت مفلس و کنگال تھا ۔اس کی دعا رب تعالٰی سے یہی تھی کہ تو نےمجھے بغیر مشقت کے پیدا کیا ہے۔اسی طرح بغیر مشقت کے مجھے روزی بھی دے وہ مسلسل یہی مانگا کرتا تھا۔اللہ تعالٰی عزوجل نے اس کی دعا قبول فرمائی،اسے خواب آیا کہ تو ردی والے کی دکان پر جا وہاں بوسیدہ کاغذوں میں سے تجھے ایک کاغذ ملے گا۔
اسے لے آ اور تنہائی میں پڑھ۔صبح اٹھ کر وہ رودی کی دکان پر گیا۔ردی میں سے وہ تحریر(گنج نامہ)تلاش کرنے لگا۔۔تھوڑی دیر بعد وہ گنج نامہ اس کے سامنے آگیا۔۔جو اسے خواب میں نظر آیا تھاا۔۔اس نے وہ کاغذ دکاندار سے لیا۔۔تنہائی میں اس کاغذ کو پڑھا۔اس پرچے میں تحریر تھا کہ شہر سے پار ایک مزار ہے ادھر ہی خزانہ دفن ہے۔مزار کی طرف پشت اور منہ قبلہ کی طرف کرکے تیر کو کمان میں رکھ۔۔جہاں پر تیر گرے وہاں خزانہ دفن ہوگا۔۔
فقیر نے تیر کمان لے کر اپنے جوہر دکھانے شروع کردیئے۔۔جہاں تیر پھینکتا وہاں جلدی سے بیلچے پھاوڑے لے کر زمین کھودنا شروع کردیتا۔۔بیلچہ،پھاوڑا اور وہ فقیر کند ہوگئے مگر خزانے کا نام و نشان بھی نہ ملا۔۔وہ روزانہ اسی طرح عمل کرتا تیر پھینکتا جس جگہ تیر گرتا اسے کھودتا مگر خزانہ نہ ملاتا۔۔فقیر کے اس پروگرام کا بادشاہ وقت کو پتا چلا۔۔بادشاہ نے اسے طلب کیا۔ ۔
اس نے ساری کہانی بادشاہ کو سنائی اور کہنے لگا جب سے خزانے کا پتہ پایا ہے۔تلاش میں ہوں،خزانہ تو نہ ملا سخت تکلیف اور مشقت میرا مقدر بن گئی ہے۔ بادشاہ نے فقیر سے وہ گنج نامہ لے لیا۔۔خزانہ پانے کے لئے بادشاہ نے بھی تیر چلانے شروع کردیئے۔چھ ماہ تک بادشاہ بھی تیر چلاتا رہا مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔۔
بادشاہ سلامت بھی ناامید ہو کر وہ گنج نامہ فقیر کو واپس کردیا۔۔ فقیر نے پھر اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کیا عاجزی و انکساری اور آنکھیں اشک بار کرکے دعا کی اے اللہ تعالٰی میری سمجھ سے یہ عقدہ بالاتر ہے۔میں راز کو نہ پاسکا۔تو خود ہی کمال مہربانی سےاسے حل کردے اور مجھے خزانے تک پہنچا دے۔
جب وہ عاجز ہو کر بارگاہ الہی میں سچے دل سے گر پڑا تو آواز آئی۔۔ میں نے تجھے تیر کو کمان میں رکھنے کو کہا تھا۔۔تجھے تیر چلانے اور کمالات دکھانے کا نہیں کہا تھا۔۔۔ خزانہ تیرے پاس تھا۔۔تیرے قریب تھا۔۔تو تیراندازی کے سفر میں اس سے دور ہوتا گیا۔۔خدا کی ذات کو اپنے اندر اپنے دل میں تلاش کر جو شہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔۔اپنے من میں ڈوب خزانہ تک پہنچ جائے گا۔
لیموں کے 14 کرشمے لیموں گرمیوں میں اپنے کھٹے رس کی بدولت پاکستان اوردیگر ممالک میں بہت زیادہ استعمال ہونے والا پھل ہے۔ مگر یہ پھل کھانے یا پینے سے ہٹ کر بھی روزمرہ زندگی میں انسان کی بہت مدد کر سکتا ہے؟
درحقیقت یہ ترش پھل خاص طور پر خاتون خانہ کو گھر میں پسندیدہ شخصیت بنا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیموں کے چند ایسے حیرت انگیز فوائد پیش خدمتہیں۔ کیڑے باورچی خانے سے دور رکھیے اب آپ کو مہنگے اسپرے کی ضرورت نہیں جو چیونٹیوں کوباورچی خانے سے بھگا سکے۔ سب سے پہلے تو لیموں کا عرق کچھ مقدار میں فرش اور دہلیز کے مقام پر اور کھڑکیوں پر چھڑک دیں۔
اس کے بعد ایسے کسی سوراخ یا دراڑ میں اس عرق کو ڈالیں جہاں سے چیونٹیاں آتی ہوں۔ آخر میں لیموں کے چھلکے کے چھوٹے ٹکڑے کرکے بیرونی دروازے کے گرد رکھ دیں، چیونٹیاں دور ہوجائیں گی۔ لیموں لال بیگ اور پسو وغیرہ کے لیے بھی کارآمد ہے،اس سلسل میں سب سے پہلے چار لیموں کا عرق چھلکوں سمیت دو لیٹر پانی میں مکس کریں اور پھر فرش کو اس سے دھولیں۔ آپ خود لال بیگوں کووہاں سے بھاگتے ہوئے دیکھیں گے کیونکہ انہیں اس کی خوشبو سے نفرت ہے
اپنے خدا سے شرم آتی ہے زلیخا نے یوسف کے عشق میں مجبور ہو کر یوسف کا دامن پکڑ لیا اور اپنی خواہش کا اظہار اس قدر شدت سے کیا کہ آپ لرز اٹھے. زلیخا کے پاس سنگ مرمر کا بت کا جس کی وہ صبح و شام پوجا کرتی.اس کی آرتی اتارتی. دریائے نیل کی سطح پر تیرتے ہوئے کنول کے پھول اس کے چرنوں میں رکھتی، عطر چھڑکتی لیکن جونہی اس نے حضرت یوسف کا دامن پکڑا تو بت کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا.
مقصد یہ تھا کہ اس کا معبود اسے اس حالت میں نہ دیکھ سکے. وہ بت سے حضرت یوسف کے ساتھ دست درازی کی چھپانا چاہتی تھی.اس نازک صورتحال سے حضرت یوسف بہت رنجیدہ ہوئے. سر پکڑ کر رہ گئے. زلیخا جذبات کی رو میں بے اختیار آپ کے پاؤں چومنے لگی اور کہنے لگی.“اتنے سنگدل نہ بنو، وقت اچھا ہے، اسے ضائع نہ کرو. میری دلی مراد پوری کرو.” حضرت یوسف رو پڑے اور فرمایا.“اے ظالم! مجھ سے ایسی توقع نہ رکھ.
تجھے اس بت سے تو شرم آتی ہے جسے تو نے کپڑے سے ڈھانپ دیا ہے اور مجھے اپنے خدا سے شرم آتی ہے جو پردوں کے پیچھے بھی دیکھتا ہے.”.حاصل کلام؛خدا سمیع و بصیر ہے. لاکھ پردوں کے پیچھے گناہ کیا جائے اس سے پوشیدہ نہیں اس لیے ہر وقت اس سے ڈرنا چاہیے