کفن چور اور پارسا عورت کا ہولناک قصہ
بغداد شریف میں ایک پارسا عورت رہتی تھی اس زمانہ میں وہاں ایک کفن چور بھی رہا کرتا تھا جب وہ پارسا عورت اس دنیا سے رخصت ہوئی تو چ و ر نے بھی اس کا ج ن ا ز ہ پڑھا تا کہ عورت کی ق ب ر دیکھ سکے۔ جب رات ہوئی تو وہ ک ف ن چ و ر اس پارسا عورت کی ق ب ر پر گیا اور ق ب ر کھودی جب اس نے ک ف ن کو ہاتھ لگا یا
تو اس پارسا عورت نے چ و ر کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا: اللہ کی شان ہے کہ ایک جنتی کسی دوسرے جنتی کا ک ف ن چرا رہا ہے۔ یہ بات سن کر ک ف ن چ و ر لرز گیا اور کہنے لگا کہ اے پارسا بی بی ! تیرے جنتی ہونے میں تو کوئی شک نہیں لیکن میں تو ساری زندگی مردوں کے ک ف ن چرائے ہیں میں کیسے جنتی ہو سکتا ہوں؟ اس پر وہ عورت بو لی اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا۔ اور جس جس نے میرا جناوزہ پڑ ھا اسے بھی بخش دیا اور تو نے بھی میرا ج ن ا ز ہ پڑھا ہے اس پر ک ف ن چ و ر شر مندہ ہوا اس نے توبہ کی اور اپنے زمانے کا قطب بن گیا۔ ش ی ط ا ن کے وفد کی حضرت عثمان ؓ سے ملاقات ایک دفعہ مدینہ منورہ میں قحط پڑ گیا آسمان نے پانی بر سا نا چھوڑ دیا تھا اور زمین نے اناج اگانے سے انکار کر دیا تھا اس قحط کی وجہ سے پورے شہر میں غربت پھیل گئی تھی لوگ دانے دانے کے لیے محتاج ہو گئے تھے حضرت عثمانؓ بڑے تاجر تھے۔
ان کی تجارت پورے عرب میں پھیلی ہوئی تھی اس دوران ان کا ایک تجارتی قافلہ شام سے لوٹا اس قافلے میں ایک ہزار اونٹ تھے۔ کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ جب یہ قافلہ مدینہ کو پہنچا تو لوگوں کو تھوڑی راحت ہوئی بچے بوڑھے خوش ہوئے قافلہ مدینہ پہنچا تاجروں کا ایک وفد بھی ساتھ ساتھ یہاں پہنچ گیا اس وفد نے حضرت عثمانؓ سے پو چھا کہ کیا وہ اپنا مال فروخت کر نا چاہیں گے؟ ان کا ارادہ تھا کہ سارا مال خرید لیں اور قحط کی وجہ سے مجبور لوگوں کو مہنگے داموں فروخت کر کے بہت سارا نفع کما یا حضرت عثمانؓ نے ان سے پوچھا کہ آپ اس کی کیا قیمت لگا تے ہیں؟ انہوں نے نفع اور بڑھا دیا پھر بھی حضر ت عثمانؓ نے وہی جواب دیا کہ اتنا تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے انھوں نے نفع اور بڑ ھا دیا لیکن اب بھی حضرت عثمان ؓ نے یہی کہا کہ اتنا تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے۔
یہ سن کر وہ تا جر حیران ہوئے انہوں نے پو چھا کہ عثمان ؓ ہم اہل مدینہ کو خوب مانتے ہیں یہاں کوئی تا جر ایسا نہیں جو تمہارے مال کو ہم سے زیادہ قیمت میں خریدے۔ آخر وہ کون ہے جو تمہیں ہم سے زیادہ نفع دے رہا ہے؟ حضرت عثمان ؓ کے سامنے اس وقت قرآن کی یہ آیت تھی جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بو یا جا ئے اور اس سے سات با لیں نکلیں اور ہر بال میں سودانے ہوں ۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے وہ فراخت دست بھی ہے اور علیم بھی۔