ایک مختصر مگر سچی کہانی
زبیدہ سے بڑی چار بہنیں تھیں زبیدہ کے بعد تین بہنیں اور آخر میں تین بھائی بڑی بہنیں تو زیادہ نہ پڑھ سکیں ۔کسی نے میٹرک کیا اور کسی نے مڈل کرکے گھر سنبھال لیا ۔سلائی وغیرہ کرنے لگیں ۔ زبیدہ نے جیسے تیسے کرکے انٹر کرلیا گھر کے حالات دیکھتے ہوئے گارمنٹس فیکٹری میں نوکری کرلی تھوڑے دنوں میں سیٹھ کی نیت زبیدہ پر خراب ہوگئی اس نے زبیدہ کو مراعات دینا شروع کردیں۔ زبیدہ بے چاری سیدھی لڑکی تھی اسے محنت کا معاوضہ سمجھتی ۔ جب سیٹھ کی دال نہیں گلی تو زبیدہ کو دھمک۔انہ شروع کردیا زبیدہ بے چاری ڈرگئی اور سیٹھ کے جھ۔انسے میں آگئی ۔
سیٹھ اسے استعمال کررہا تھا تو وہ زبیدہ کوفائدہ بھی پہنچا رہا تھا زبیدہ لالچی نہیں تھی مگر اس کے بونس اور زیادہ وقت لگانے سے گھر میں خوشحالی آنے لگی تھی ۔ یہ ک۔ڑوا گ۔ھونٹ پینے لگی اس کھیل کو پانچ سال گزر گئے ۔اس دوران زبیدہ کی بڑی بہنوں کی شادی ہوگئی اور زبیدہ نے پڑھائی سلسلہ شروع کردیا اسے فیکٹری میں زیادہ کام نہیں کرنا پڑتا تھا ۔ زبیدہ کو پڑھائی کا شوق تھا حالات اس کے مطابق تھے لہذا پڑھائی کا سلسلہ شروع کردیا۔سیٹھ کو کوئی اعتراض نہیں تھا وہ اس کی ہر خواہش پوری کررہی تھی ۔ زبیدہ نے ایم اے کرلیا اور چپکے سے ایک دو جگہ نوکری کیلئے اپلائی کردیا جب اسے ایک پرائیویٹ کالج سے آفر آئی تو اس نے فوراً قبول کرلیا ۔ اس نے فیکٹری اور سیٹھ سے ج۔ان چھ۔ڑائی اور کالج میں پڑھانے لگی ۔وہ اس سے چھوٹی تھیں ۔رشتہ زبیدہ کیلئے آیا تھا وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔اسکی ماں بھی کماؤ بیٹی کو کھونا نہیں چاہتی تھی ۔ زبیدہ کو شروع میں محسوس تو ہوا جب اسکی ماں نے رشتے کی انکاری پر ذرابھی اسرار نہ کیا فوراً چھوٹی بہن کیلئے ہاں کردی ۔ دوسری بہن کی شادی کرکے اب زبیدہ کی ذمہ داری کم ہوگئی ۔ اب صرف چھوٹی بہن تھی سکول میں پڑھانے لگی تھی ۔ بھائی کافی سمجھدار ہوگئے ۔
اس دورا ن زبیدہ کا باپ ن ش ے کی حالت ایک۔سیڈن۔ٹ میں ف۔وت ہوگیا۔ شوہر کے م۔رنے سے ماں کو خاص سکھ نہیں ہوا کیونکہ وہ زندہ تھا ۔تو ع۔ذاب ج۔ا۔ں ہی تھا م۔رنے پر ذہنی اذیت سے نج۔ات ملی ۔زبیدہ کو اپنی ماں کے خیالات سے کافی دک۔ھ ہوا مگر وہ خاموش ہوگئی ۔ زبیدہ کی اپنے کالج کے ایک پروفیسر سے متاث۔ر ہوگئی جن کی اپنی بیوی سے علیحدگی ہوچکی ہے۔ وہ اکیلے رہتے ہیں سٹاف کے لوگ اس کی تعریف کرتے تھے ۔ زبیدہ متاثر ہوگئی وہ منتظر تھی کہ کوئی بات کریں ۔ پروفیسر صاحب کو اندازہ ہوگیا کہ لوہا گ۔رم ہوچکا ہے لہذا انہوں نے پروپوز کردیا زبیدہ خود بھی یہی چاہتی تھی اس نے فوراً ہاں کردی اور گھر میں بات کی زبیدہ کی ماں نے منع کردیا۔
کیونکہ وہ زبیدہ کو جانے نہیں دینا چاہتی تھی ۔ بڑ ی بہنوں کا اعتراض تھا کہ وہ عمر میں کافی بڑے اور شادی شدہ ہیں زبیدہ نے نہ سنی او رپروفیسر سے نکاح کرکے گھر چھوڑ دیا ۔ انہوں نے زبیدہ کیلئے الگ فلیٹ لے لیا زبیدہ خوش تھی لیکن خوشی عارضی ثابت ہوئی ۔ کیونکہ پروفیسر صاحب بظاہر مہذب تھے اندر سے اتنے ہی جنگ.لی ثابت ہوئے وہ زبیدہ پر تش۔دد کرنے لگے۔زبیدہ ہاتھ ج۔وڑتی اث۔ر نہ ہوتا ہے ۔لگتا تھا کہ رات کے وقت کوئی ج۔ن آجاتا اور صبح وہ خوش اخلاق اور مہذب ہوجاتے مگر وہ بھی باہر والوں کیلئے اب زبیدہ چونکہ بیوی بن چکی تھی اس لیے وہ شریفانہ اور مہذب پروفیسر صرف باہر ہوتے گھر میں وہ جنگ۔لی بھی۔ڑیے کی شکل اختیار کرلیتے ۔زبیدہ کے پاس کوئی راستہ نہ تھا ماں نے قطع تعلق کرلیا اب وہ مجبورتھی ہر ظ۔لم خاموشی سے سہ۔تی رہتی ۔
یہ کھیل کچھ عرصہ چلا پھر پروفیسر صاحب غائب رہنے لگے ۔ پوچھنے پر جواب نہ دیتے ایک دن انکشاف کردیا کہ بیوی واپس آگئی ہے و ہ اسے نہیں چھوڑ سکتے اس لیے صرف دن میں آیا کریں گے ۔زبیدہ بہت روئ۔ی پی۔ٹی مگر پکی عمر کے آدمی کا رویہ اور مزاج بن چکا ہوتا ہے ۔ وہ زبیدہ جیسی بھولی اور سادی لڑکیوں کو بے وقوف بناسکتے ہیں۔لیکن بے وقوف نہیں بنتے وہ فلیٹ زبیدہ کو دلا چکے تھے ۔زبیدہ خود جاب کرتی اس لیے گھر سے ہاتھ چھی۔ن لیا پہلی بیوی سے دو بچے تھے ۔ادھر زبیدہ کو اولاد بھی پیدا نہ کرنے دی تھی صورتحال یہ ہے کہ زبیدہ اکیلی رہتی ہے پروفیسر صاحب بیوی بچوں میں مگن کبھی کبھار زبیدہ کے پاس آجاتے ہیں ایسی عورت کو زمانہ رکھیل کہتے ہیں زبیدہ ایسی ہی زندگی گزار رہی ہے ۔