بادشاہ کی حوس نے نیک عورت کو شوہر سے دور کر دیا! لیکن عورت نے بادشاہ کو ہی ذلیل کروا دیا۔جانیں سبق آموز تحریر
ایک بادشاہ محل کی چھت پر ٹہلنے چلا گیا ٹہلتے ٹہلتے اس کی نظر محل کے نزدیک ایک گھر کی چھت پر پڑی۔جس پر ایک بہت خوبصورت عورت کپڑے سکھا رہی تھی بادشاہ نے اپنی ایک باندھی کو بھلا کر پوچھا کہ کس کی بیوی ہے یہ باندھی نے کہا بادشاہ سلامت یہ آپ کے غلام فیروز کی بیوی ہے۔ بادشاہ نیچے اترا بادشاہ پر اس عورت کا خسن و جمال کا سہر سہ چا گیا تھا اس نے فیروز کو بھلایا فیروز حاضر ہوا تو بادشاہ نے کہا فیروز ہمارا ایک کام ہے ہمارا یہ خط فلاح ملک کے فلاح بادشاہ کو دے آو۔
اور مجھے اس کا جواب بھی ان سے لے آنا تو فیروز کہنے لگا کہ بادشاہ کا حکم سر آنکھوں پر اور وہ اس خط کو لیکر گھر واپس آ گیا اور خط کو اپنے سرہانے کے نیچے رکھ دیا سفر کا سامان تیار کر لیا رات گھر میں گزری اور پھر صبح منزل مقصود پر راوانا ہو گیا۔ اس بات سے لاعلم کہ بادشاہ نے اس کہ بادشاہ نے اس کے ساتھ کیا چال چلی ہیں ادھر جیسے ہی فیروز نظروں سے اوجھل ہو گیا بادشاہ چپھکے سے فیروز کے گھر پہنچا اور آہستہ سے دروازہ کھٹکھٹایا فیروز کی بیوی نے پوچھا کہ کون ہے دروازے پر بادشاہ نے کہا کہ میں بادشاہ ہوں تمھارے شوہر کا مالک تو اس نے دروازہ کھولا بادشاہ اندر آ کر بیٹھ گیا۔ فیروز کی بیوی نے حیران ہو کر کہا کہ آج بادشاہ سلامت یہاں ہمارے غریب خانے میں تو بادشاہ نے کہا میں یہاں مہمان بن کر آیا ہوں۔ فیروز کی بیوی نے بادشاہ کا مطلب سمجھ کر کہا میں اللہ کی پناہ چاہتی ہوں آپ کی اسطرح آنے سے مجھے کوئی خیر نظر نہیں آ رہا ۔ بادشاہ نے غصّے میں کہا کہ اے لڑکی کیا کہہ رہی ہو تم شاید تم نے مجھے پہچانا نہیں میں بادشاہ ہوں تمہارے شوہر کا مالک فیروز کی بیوی نے کہا کہ بادشاہ سلامت میں جانتی ہوں کہ آپ ہی بادشاہ ہیں لیکن بزرگ کہہ گئے ہیں اگر مچھر گر جائے کھانے میں تو میں ہاتھ اٹھا لیتا ہوں اگر چہ میرا دل کرتا ہے کھانے کو میں تمہارے پانی میں کوئی پھول نہیں چھوڑونگا لوگوں کا بقصد یہاں آنے جانے کی وجہ سے شیر کو اگرچہ جتنی بھی تیز بھوک لگی ہو لیکن وہ تو مردار کھانا نہیں شروع کر دیتا اور کہا کہ بادشاہ سلامت تم اس کٹورے میں پانی پینے آ گئے ہو جس میں تمہارے کتے نے پانی پیا ہے۔ بادشاہ اس عورت کی باتوں سے بڑا شرم سار ہوا اور اس کو چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ لیکن اپنے چپل وہی پر بھول گیا یہ سب تو بادشاہ کی طرف سے ہوا اب فیروز کو آدھے راستے میں یاد آ گیا کہ جو خط بادشاہ نے اسے دیا تھا وہ تو گھر پر ہی چھوڑ آیا اس نے گھوڑے کو تیزی سے واپس موڑا اور اپنی گھر کی طرف لپکا۔ فیروز اپنے گھر پہنچا تو تکیے کے نیچے خط نکالتے وقت اس کی نظر پلنگ کے نیچے پڑی بادشاہ کے نال یعنی چپل پر پڑی جو وہ جلدی میں بھول گیا تھا۔ فیروز کا سر چکرا گیا کر رہ گیا اور وہ سمجھ گیا کہ بادشاہ نے اس کو سفر پر اس لئے بھیجا تاکہ وہ اپنا مطلب پورا کر سکے۔ فیروز کسی کو کچھ بتائے بغیر چھپ چھاپ گھر سے نکل گیا۔ خط لے کر وہ چل پڑا اور کام ختم کرنے کے بعد بادشاہ کے پاس واپس آیا تو بادشاہ نے انعام کے طور پر اسے 100 دینار دیئے۔
فیروز دینار لے کر بازار گیا اور عورتوں کے استعمال کے کچھ کپٹرے خرید لیں ۔ اور گھر پہنچ کر بیوی کو سلام کیا اور کہا چلو آپ کے ماں باپ کے گھر چلتے ہیں بیوی نے پوچھا کہ یہ کیا ہے کہا کہ بادشاہ نے انعام دیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ پہن کر اپنے گھر والوں کو بتاو تو بیوی بولی جیسے آپ چاہو اور بیوی تیا ہوئی اور اپنے والدین کے گھر اپنے شوہر کے ساتھ روانہ ہوئی داماد اور بیوی کو لائے گئے سامان کو وہ لوگ دیکھ کر بہت زیادہ خوش ہو گئے ۔
فیروز بیوی کو چھوڑ کر واپس آ گیا اور ایک مہینہ گزرنے کے باوجود نا بیوی کا پوچھا اور نا اس کو واپس لے آیا۔ اور پھر کچھ دن بعد اس کے سالے اس سے ملنے آئے اور اس سے پوچھا فیروز آپ مجھے ہماری بہن سے غصّے اور ناراضگی کی وجہ بتا دے یا پھر ہم آپ کو قاضی کے سامنے پیش کرینگے تو فیروز نے کہا اگر تم چاہو تو کر لو پیش لیکن میرے ذمے اب اسکا کوئی حق باقی نہیں جو میں نے ادا نا کیا ہو۔ وہ لوگ اپنا کیس قاضی کے پاس لے گئے تو قاضی نے فیروز کو بھلایا قاضی اس وقت بادشاہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔ لڑکی کے بھائیوں نے کہا کہ اللہ بادشاہ سلامت اور قاضی کو قائم اور دائم رکھے۔ قاضی صاحب ہم نے ایک سر سبز باغ پھلوں سے بھرے ہوئے اور ساتھ میں میٹھے پانی کا کنواں اس شخص کے حوالے میں دیا تو اس شخص نے ہمارا باغ اجھاڑ دیا سارے پھل کہا لیے اور درخت کاٹ لیں اور کنواے کو خراب کر کہ بند کر دیا۔قاضی فیروز کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا وہ لڑکے تم کیا کہتے ہو فیروز نے کہا قاضی صاحب جو باغ مجھے دیا گیا تھا وہ اس سے بہتر حالت میں انہیں واپس کیا ہے ۔ قاضی نے پوچھا کیا اس نے باغ تمہارے حوالے اسی حالت میں واپس کیا ہے جیسے پہلے تھا انہوں نے کہا ہاں ویسے ہی حالت میں واپس کیا ہے لیکن ہم اس سے باغ واپس کرنے کی وجہ پوچھنا چاہتے ہیں۔ قاضی نے کہا ہاں فیروز تم کیا کہنا چاہتے ہو اس بارے میں فیروز نے کہا کہ قاضی صاحب باغ میں نے کسی بغض یا نفرت کی وجہ سے نہیں چھوڑا لیکن اس لیے چھوڑا کہ ایک دن میں باغ میں آیا تو اس میں میں نے شیر کے پنجوں کے نشان دیکھے تو مجھے خوف ہوا کہ شیر مجھے کہا جائے گا ۔
اس لئے شیر کی اکرام کی وجہ سے میں نے باغ میں جانا بند کر دیا۔ بادشاہ جو ٹیک لگائے یہ سب کچھ سن رہا تھا اور اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہا فیروز اپنے باغ کی طرف امن اور مطمئن ہو کر جاؤ و اللہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیر تمہارے باغ کی طرف آیا تھا لیکن وہ وہاں پھر نہ تو کوئی اسر چھوڑ سکا نہ کوئی پتہ توڑ سکا اور نہ ہی کوئی پھل کہا سکا۔ وہ وہاں پر تھوڑی دیر رہا اور مایوس ہو کر لوٹ گیا اور خدا کی قسم میں نے کبھی تمہارے جیسے باغ کے گرد لگے مضبوط دیواریں نہیں دیکھی تو فیروز اپنے گھر لوٹ آیا اور اپنی بیوی کو ساتھ واپس لایا۔ نا تو قاضی کو پتہ چلا اور نا کسی اور کو کہ ماجرا کیا تھا۔ کیا خوب بہتر ہے کہ اپنے اہل وعیال کے راز چھپانا تاکہ لوگوں کو پتہ نا چلے اپنے گھروں کے بیت کسی پر ظاہر نا کرو ۔ اللہ آپ لوگوں کی اوقات خوشیوں سے بھر دے آپ کو آپ کے اہل وعیال کو اور آپ کے مال کو حفظ امان میں رکھے۔ آمین