آخری لمحات

مکہ معظمہ سے واپسی پر حضورﷺ بیمار ہوئے اور یہی بیماری مرضِ موت ثابت ہوئی اور یہ مرض بھی عجیب تھی، ایک طرف یہ بیماری اور ایک طرف خیبر میں جو یہودی عورت نے زیر دی تھی اس کا اثر تھا لہٰذا موت اور شہادت کا امتزاج تھا، ماہِ صفر کی آخری تاریخوں میں مرض کا آغاز ہوا پھر کبھی افاقہ اور کبھی اضافہ ہوتا رہا، تاہم گیارہ دن تک باوجود اس کے مسجد میں تشریف لاکر نمازیں پڑھاتے رہے، آخری نماز جو آپ نے پڑھائی وہ نما زمغرب تھی، جس میں سورۃ مرسلات تلاوت فرمائی اس کے بعد آپ کی منشاء حکم سے آپﷺ کی حیات میں 17 سترہ نمازیں سیّدنا ابوبکر صدیق اکبر(رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے پڑھائیں، طبعیت کے سنبھلنے پر خطیبِ کائنات نے ایکا ور اہم اور آخری  خطبہ ارشاد فرمایا، جس کے بعد پھر کبھی مسجد نبوی میں یہ مجلس نہ جم سکی:۔

9 ربیع الاوّل کو کچھ سکون ہوا تو چہرہ انورؐ کی آخری جلھلک دروازہ کا پردہ سرکا کر اُمت کو دکھائی اور اشارے سے حکم دیا کہ نماز پڑھیں۔

آخری تنبیہ  زیر لب یہ سنی گئی کہ یہودی و انصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو، اُٗنہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔

آخری کام کے طور پر آپ ﷺ نے مسواک کی اور آخری وسیت کے طور پر جو آپ ﷺ کے لبِ اقدس کو حرکت ہوئی وہ یہ تھی کہ “نماز!نماز اور ماتحتوں کے حقوق”۔

پیر کا دن تھا اور سہ پہر کا وقت، نزع کے عالم میں آخرت کلمات ارشاد فرمائے:۔

ترجمہ:

“خدا کے  سوا کوئی کار ساز نہیں بے شک موت کے لئے سختیاں ہیںٗٗ۔

پھراچانک ہاتھ اونچا کیا اور انگلی سے اشارہ کیا اور زبانِ مقدس سے تین دفعہ فرمایا:۔

ترجمہ:۔

“اب صرف اُسی کی رفاقت چاہئے”

یہ فرماتے ہوئے تیسری آواز پر رُوح عالمﷺ کی روحِ مطہر عالمِ قدس کو ہمیشہ کے لئے پرواز کرگئی۔ انا للہ و انالیہ راجعونَ

وصا ل کے بعد جس حجرہ عائشہ صدیقہ(رضی اللہ تعالی عنہ) کے اند ر حضور عالم ﷺ دنیا سے حجاب فرما کر آرام فرماہیں، اُن کی رفعتِ شان کا کیا کہنا  کہ:۔

ادب گاہیست زیر آسمان از عرش نازک تر

نفس گُم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا۔

اور علامہ سید سلیمان  ندوی  نے کیا خوب فرمایا:۔

ّّپاکیزہ تراز عرش و سماجنت فردوس آرام گاہ پاک رسول عربی ہےٗٗٗ

آہستہ قدم نیچی نگاہ پست صدا ہو، خوابیدہ یہاں روحِ رسول عربیؐ ہے۔

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثیراً کثیراً

اپنا تبصرہ بھیجیں