برقعے میں خواتین۔۔۔۔
قارئین آپ کو بتاتے جائیں کے ابھی خال میں ہی ٹی وی اینکر پرسن غریدہ فاروقی جو اپنے لباس کی وجہ سے ہمیشہ تنقید کی ذد میں رہتی ہیں۔ ایک دن پہلے غریدہ فاروقی نے پرویز ہودبھائی کی ٹویٹ ری ٹویٹ کی ہے جس میں روشن خیال پرویز ہودبھائی
کہہ رہے ہیں کہ پہلے میری کلاس میں نارمل لڑکیاں آتی تھیں، اب برقع اور حجاب بہت زیادہ ہوگیا ہے. ہمارے ہاں زیادہ تر خواتین سر ڈھکتی ہیں. ہم میں سے بیشتر نے اپنی ماؤں کو کبھی ننگے سر نہیں دیکھا ہوگا. گویا ان کے نزدیک پاکستانی خواتین کی اکثریت
‘ابنارمل’ ہے. یہ بات فزکس کا ایک استاد جو پورے پاکستان میں جانا جاتا ہے ایک ٹاک شو میں کہہ رہا ہے. اس ٹاک شو کی میزبان خواتین کے حقوق کی علمبردار ہے، جسے ابھی حال ہی میں خواتین اساتذہ کے ڈریس کوڈ پہ شدید تکلیف ہوئی ہے.
پرویز ہودبھائی کے پاکستان کی بیشتر خواتین کو ابنارمل کہنے پر خواتین کے حقوق کی علمبردار کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا ہے بلکہ وہ ان کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے. اس ریمارکس سے نہ تو باپردہ خواتین کی توہین ہوئی نہ ہی کسی فیمنسٹ کے نزدیک نازیبا
بات کہی گئی ہے. اس بات سے ثابت ہوا کہ يہ عورتوں كے حقوق كى جنگ نہيں جنگ تو اصل میں اسلام سے ہے. مسئلہ صرف اسلامی احکامات سے ہے.اگر کوئی سمجھتا ہے کہ حجاب پہننے سے عورت کے کانفیڈنس لیول میں کوئی کمی ہوتی ہے تو اس کی سوچ
انتہائی سطحی بلکہ biased ہے. حجاب ایک چوائس ہے جو ہر عورت کا حق ہے. میں نے اب تک تین انگریز، ایک آسٹریلین، تین پاکستانی اور ایک انڈین پرنسپلز کے انڈر کام کیا ہے. مجھے او اور اے لیولز کی کلاسز ایک انگریز پرنسپل نے دی تھیں بلکہ ایک
ناتجربہ کار ستائیس سالہ لڑکی کو ایچ او ڈی بنایا تھا. میں تو اس وقت بھی محجبہ تھی. اس دشت کی سیاحی برسوں سے کر رہی ہوں لیکن آج تک نہیں دیکھا کہ خوداعتمادی حجاب نہ لینے کی مرہونِ منت ہوتی ہے. حجاب لینے والی بھی اتنی ہی پراعتماد
اور efficient ہو سکتی ہیں جتنی کہ حجاب نہ لینے والی. کسی بھی انسان کو اس کے لباس سے جج کرنا سطحیت اور prejudice کی انتہائی گھٹیا قسم ہے. مجھے تو ان باحجاب اسٹوڈنٹس پہ ترس آرہا ہے جنہیں اس شخص نے اپنی ذاتی ناپسندیدگی کا نشانہ بنایا ہوگا.