بچے میرا خون ہیں میرے پاس رہیں گے، وہ ظلم جو سسرال والے عورت کے ساتھ طلاق کے نام پر کرتے ہیں
عجب روایات معاشرے کا حصہ ہیں جن پر آواز اٹھانے والا باغی کا خطاب پاتا ہے یا پھر اس پر بدکرداری کا الزام لگا کر خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ حالیہ دور میں بھی ایسے گھرانے پائے جاتے ہیں جہاں پر پڑھی لکھی ساس بھی یہ کہتی نظر آتی ہے کہ ہمارے خاندان کی سات نسلوں میں طلاق کا رواج نہیں ہے- اس وجہ سے میاں بیوی کے درمیان تعلقات جتنے بھی برے ہوں مگر ان کو طلاق کا آپشن استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے-
اگر طلاق کا مطالبہ عورت کی جانب سے ہو تو
طلاق کا حق مذہب نے مردوں کو تفویض کیا ہے اور معاشرے کا بھی یہی ماننا ہے کہ اس فیصلہ کا اختیار صرف مرد کے پاس ہے- لیکن آج کے زمانے میں جب عورت اپنے حالات کے سبب طلاق کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہو جائے تو طلاق کے اس حق کو اس کے سسرال والوں کی اور شوہر کی جانب سے ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے-
طلاق دینے سے قبل بہت ساری ایسی باتیں بھی اس عورت سے منوالی جاتی ہیں جس کا حق اس کو دین مذہب اور قانون کے تحت حاصل ہوتا ہے- مگر صرف طلاق کے بدلے میں وہ سب چیزیں عورت سے معاف کروا لی جاتی ہیں ایسی ہی کچھ زيادتیوں اور ظلم کے بارے میں ہم آپ کو آج بتائیں گے-
جہیز کا سامان واپس نہیں لے گی
طلاق کا مطالبہ اگر عورت کی جانب سے ہو تو یہ اس کا شرعی حق ہے کہ وہ اگر بعض وجوہ کی بنا پر کسی مرد کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو اس کو زبردستی اس کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ایسا مطالبہ کرنے والی عورت کو سب سے پہلے اس بات پر قائل کیا جاتا ہے کہ اگر اس کو طلاق چاہیے تو اس کواس گھر سے خالی ہاتھ جانا ہو گا اور وہ اپنے ساتھ جہیز کا کوئی سامان نہیں لے جا سکے گی-
سسرال سے ملے تحائف پر کوئی حق نہیں ہوگا
شادی کے موقع پر بری کے نام پر اکثر خواتین کو سونے کے زیورات اور دیگر تحائف دیے جاتے ہیں جو کہ شرعی طور پر اس عورت کا حق ہوتے ہیں اور اس سے واپس نہیں لیے جا سکتے ہیں- لیکن طلاق کے مطالبے کی صورت میں اس عورت کو ان تمام چیزوں کو واپس لوٹانا پڑتا ہے تبھی اس کو طلاق مل سکتی ہے-
بچے ماں کے حوالے نہیں کیے جائیں گے
یہ وہ حربہ ہوتا ہے جس کے ذریعے کسی بھی عورت کو آخر تک جانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے- اس کے مطابق اگر طلاق لو گی تو بچے ساتھ لے جانے کی اجازت نہ ہو گی کسی بھی عورت کو اپنے گھٹنوں پر جھکانے کے لیے یہ وہ دھمکی ہوتی ہے جس کے سامنے ہر ماں مجبور ہو جاتی ہے جب کہ شرعی طور پر اور پاکستانی قانون کے مطابق ایک خاص عمر تک کسی بھی ماں سے اس کے بچوں کو جدا نہیں کیا جا سکتا اور اس کے بعد بھی کسٹڈی کا فیصلہ بچے خود کرتے ہیں جب وہ شعور حاصل کر لیتے ہیں- اس کے علاوہ ان کی کسٹڈی کا فیصلہ زبردستی نہیں کیا جا سکتا ہے-
نان و نفقہ کا کوئی دعویٰ نہیں ہوگا
اگر عورت ہر محاذ پر لڑ جھگڑ کر بچے لے بھی لے تو اس عورت کو کمزور کرنے کے لیے بچے حوالے کرتے ہوئے یہ شرط بھی رکھ دی جاتی ہے کہ اگر تم میں اتنا دم ہےتو بچے لے جاؤ- مگر ان بچوں کے حوالے سے کسی نان و نفقہ کا دعویٰ نہیں کر سکتی ہو اور طلاق کے وقت ہی اسٹامپ پیپر پر یہ لکھوا لیا جاتا ہے کہ عورت مستقبل میں کسی قسم کے نان و نفقہ کا دعویٰ نہیں کر سکے گی-
حق مہر معاف کر دے گی
اکثر گھرانوں میں بیٹیوں کی شادی کے وقت بھاری بھرکم مہر یہ سوچ کر لکھوایا جاتا ہے کہ یہ اس کی خوشگوار زندگی کی ضمانت ہو گا- مگر یہی حق مہر اگر میاں بیوی کے درمیان نبھا نہ ہو سکے تو اس کے لیے مسائل کا بھی سبب بن جاتا ہے- اکثر مرد حضرات اور سسرال والے طلاق کو حق مہر معاف کرنے سے مشروط کر دیتے ہیں اور اگر طلاق کا مطالبہ لڑکی کر دے تو پھر تو اس کو حق مہر معاف کر کے ہی طلاق لینی پڑتی ہے-
یہ تمام ایسے ظلم ہیں جن کی اجازت نہ تو دین میں ہے اور نہ ہی اس کی اجازت قانون دیتا ہے مگر ہمارے معاشرے کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے اس کو اپنے مفاد کے لیے نافذ کر رکھا ہے اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے کمنٹ سیکشن میں لازمی بتائيں-